پشاور (بی بی سی اردو) آزادی اور انقلاب مارچ اور دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے متاثرین کے مسائل اب پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ 54 ہزار خاندان کن حالات میں ہیں، اس بارے میں حکومت، حزب اختلاف میں شامل تمام جماعتوں کے رہنما اور ذرائع ابلاغ سب خاموش نظر آتے ہیں۔ ان مارچوں سے پہلے سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کے رہنما بنوں کے دورے کر رہے تھے جس وجہ سے متاثرین کے مطابق ان کے مسائل کسی حد تک حل ہو رہے تھے۔ بنوں کے ایک کرائے کے مکان میں مقیم متاثرہ شخص میر قلم خان نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ کے حکام ویسے تو ان کے رابطے میں نہیں آتے لیکن جب اعلیٰ حکومتی ارکان علاقے کا دورہ کرتے تھے تو چھائونی کے علاقے میں ان کی ملاقات متاثرہ افراد سے کرائی جاتی تھی جس میں انہیں متاثرین اپنے مسائل سے آگاہ کرتے تھے۔ اس سے ان کے کچھ مسائل حل ہو جاتے تھے لیکن اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ ان دوروں کے دوران متاثرین کی مدد کے علاوہ ان کے لئے بڑے منصوبوں کے اعلانات بھی کئے گئے۔ایک متاثرہ شخص بیت اللہ خان نے کہا ان سیاسی سرگرمیوں سے پہلے ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بنوں میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور متاثرہ افراد کی خبریں سارا دن ذرائع ابلاغ کو جاری کی جاتی تھیں جس کی وجہ سے ان کے مسائل حل ہو رہے تھے۔ سیاست دان کیا غائب ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا بھی یہاں سے چلا گیا ہے اور میڈیا پر اب متاثرہ افراد کہیں نظر نہیں آ رہے۔
متاثرین آپریشن کے مسائل