اسلام آباد (ٹیرس جے سیگانی+ نیشن رپورٹ+ نوائے وقت رپورٹ) این ایل سی میگاکرپشن کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا این ایل سی میگاکرپشن کیس میں 6 اگست کو آرمی چیف کی طرف سے نیب کو خط ملا افسران بے قاعدگیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ صرف یہ بتایا گیا نقصان ہوا لیکن کتنا نقصان ہوا، یہ نہیں بتایا گیا۔ سروس سے نکال دینے سے سول اور کریمنل لائیبلٹی ختم نہیں ہوتی۔ سپریم کورٹ میں این ایل سی میگا کرپشن کیس کی سماعت چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا این ایل سی میں نیب نے اپنے طور پر کیا کیا۔ سروس سے نکال دینے سے سول اور کریمنل لائیبلٹی ختم نہیں ہوتی، کیا نیب نے این ایل سی انکوائری کمیٹی کو خط لکھ کر کرپشن کا ریکارڈ منگوایا۔ نیب نے این ایل سی کیس میں کیا تیرے مارے ہیں۔ پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا نیب نے خط لکھا لیکن جواب نہیں آیا۔ نیشن رپورٹ کے مطابق عدالت نے نیب سے سوال کیا کہ 4 بلین کے نقصان پر 2 فوجی افسروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ جسٹس دوست محمد نے سوال کیا این ایل سی کس قانون کے تحت قائم ہوئی اور کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا اگر یہ سول قانون کے تحت قائم ہے تو پھر فوجی افسر جو ڈیپوٹیشن پر جوائن کرتے ہیں وہ ریگولر ونگ کا حصہ نہیں رہے۔ انہوں نے کہا سول قانون کے تحت کام کرنے کی صورت میں افسروں کیخلاف متعلقہ قوانین کے تحت ہی کارروائی ہونی چاہئے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایا ریکارڈ کی فراہمی کیلئے جی ایچ کیو کو تحریری خط لکھا مگر ریکارڈ ابھی تک موصول نہیں ہوا۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس پر کہا عدالت اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کریگی کہ وہ وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب کرے۔ مزید سماعت جمعہ تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔