لفظوں کے انتخاب میں میری شرمساری

Aug 19, 2015

نصرت جاوید

میری ماں اللہ بخشے قدیمی اور اندرونی شہرِ لاہور کی ایک Typicalخاتون تھیں۔ اب لفظ Typical کا استعمال ہی میرے جیسے نیم پڑھے لوگوں کی کم مائیگی کو فوراََ ظاہر کردیتا ہے جو اپنی مادری زبان کے بجائے دوسری زبانوں میں لکھ کر رزق کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ویسے تو ایک عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار بھی ہوا کرتا تھا۔ نام تھا اس کا Samuel Beckett۔ اسے ڈراموں کی ایک خاص صنف کا بانی مانا جاتا ہے۔ ایسے ڈراموں کو Absurdکہا جاتا تھا۔ ان میں ارسطو کے بتائے اصولوں کے مطابق ڈرامہ کوئی ایسی کہانی بیان نہیں کرتا جس کا آغاز، درمیان اور انجام ہوتا ہے۔
بیکٹ کے ڈراموں میں حرکت نام کی چیز نظر ہی نہیں آتی۔ بس چند کردار اور بعض اوقات صرف ایک کردار خود کو ایک ایسی صورتِ حال میں جکڑا ہوا محسوس کرتاہے جس سے فرار کی خواہش تو بہت شدید ہے مگر ایسا ہونا تقریباََ ناممکن ہوتا ہے۔ اپنی مضحکہ خیز مگر رحم یا نفرت پیدا کرنے والی صورتِ حال میں جکڑے کردار کسی مسیحا کے منتظر بیٹھے دل دہلا دینے کی حد تک بے بس نظر آتے ہیں۔
Waiting for Godotسے شروع ہوکر بیکٹ جب اپنے فن کی انتہائوں تک پہنچا تو اس کے ڈراموں میں مسیحا کا انتظار بھی ختم ہوگیا۔ کرداروں کے بال جھڑنے، کھالیں لٹکنا اور دانت گرنا شروع ہوگئے۔ مکمل تنہائی میں صرف موت کا انتظار کرتے اس کے کردار اپنے ماضی کے اچھے یا برے دنوں کو خودکلامی جیسے ڈرامے کی اصطلاح میں Monologueکہا جاتا ہے، میں مبتلا ہوکر اپنی چند باتوں اور یادوں کو بس ذہنی مریضوں کی طرح دہراتے چلے جاتے۔
بیکٹ آئرلینڈ کا باشندہ تھا۔ اس کی انگریزی زبان پر گرفت بڑی گہری اور ماہرانہ تھی۔ مگر ڈرامے وہ فرانسیسی زبان میں لکھا کرتا تھا۔ اپنی مادری زبان کے بجائے ایک غیر ملکی زبان میں لکھنا جس کی اپنی ادبی روایات بہت ہی ٹھوس اور شاندار تھیں ایک عجیب سی بات تھی۔ بیکٹ کا مگر اصرار تھا کہ ایک دوسری زبان میں لکھتے ہوئے لکھاری کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے اسے بھرپور طریقے سے بیان کرنے کے لئے صرف ان الفاظ کا چنائو کرے جنہیں پڑھنے یا سننے کے بعد قاری اور تماشائی کے ذہن میں بھی وہی خیال آئے جو لکھاری کے اپنے ذہن میں آیا ہے۔ اس ٹھوس خیال سے دائیں بائیں ہونے کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔
بیکٹ کے انٹرویوز وغیرہ پڑھتے ہوئے مجھے اکثر یہ خیال آتا کہ شاید ہمارے کلاسیکی ادیب فارسی میں صرف اس لئے نہیں لکھا کرتے تھے کہ وہ دربار کی زبان تھی۔ فارسی زبان کی باریکیوں کو بڑی محنت اور لگن سے پوری عمر لگاکر سیکھا کرتے تھے تو بیکٹ ہی کی طرح صرف ’’وہ بات‘‘ کہنے کے لئے جو ان کے اپنے ذہن میں تھی۔
غالبؔ کے زمانے میں اُردو کا چلن عام ہوگیا تھا۔ آگرہ میں پیدا ہوکر دلّی میں آباد ہونے والے غالب کے لئے اُردو گھر کی لونڈی تھی۔ مرتے دم تک انہیں گلہ مگر یہ رہا کہ انہوں نے اپنا سارا ہنر فارسی زبان میں شعر لکھنے پر صرف کردیا۔ اس ہنر کی شناخت اور اسے سراہنے والے لیکن دنیا میں موجود نہیں رہے۔
ہمارے اقبال نے شاعری شروع کی تو دفتری زبان انگریزی ہوچکی تھی۔ قانون اور فلسفے کے اس ذہین طالب علم کو یہ دونوں زبانیں خوب آتی تھی۔ اُردو پر ان کی گرفت سمجھنا ہو تو بس اتنا یاد کرلیجئے کہ اپنی ابتدائی غزلوں کی اصلاح انہوں نے داغ جیسے شاعر سے مانگی۔ داغ نے اپنا بچپن اور جوانی دلّی کے قلعے میں گزاری تھی۔ وہاں بولی جانے والی زبان مستند مانی جاتی تھی اور داغ کا اپنا دعویٰ بھی تھا کہ ’’آتی ہے اُردو زباں آتے آتے‘‘۔
داغؔ جیسے جیّد اُردو دان سے زبان وبیان کی باریکیاں سیکھنے والے اقبال نے مگر اپنا بیشتر کلام فارسی میں لکھا۔ میری نسل کے لوگ اس زبان سے ہرگز واقف نہیں۔ میرے جیسے شخص کو، جو اتنا اخبار کے لئے لکھے جانے والے ایک کالم کا آغاز کرتے ہوئے انگریزی کا Typical لکھنے پر مجبور ہوا۔ کسی عام شاعر کی زبان پر رائے دینے سے پہلے سوبار سوچنا چاہیے اور یہاں ذکر ہورہا ہے اقبال اور ان کی فارسی شاعری کا۔
اقبال کی فارسی شاندار تھی اس کا علم مجھے 1994ء میں ایران میں دس دن گزارنے کے بعد ہوا۔ وہاں ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتیں تو نہ ہوئیں۔ زیادہ تر صحافیوں یا ان ماہرین سے ملتا رہا جو بین الاقوامی سیاست پر کتابیں اور مضامین لکھا کرتے ہیں۔ وہ لوگ بھی وقتاََ فوقتاََ ’’اقبال لہوری‘‘ کا تحسین بھرے جذبات سے ذکر کیا کرتے تھے۔
مجھے سب سے زیادہ حیرت مگر ایک مشہور سرجن کے ہاں رات کے کھانے کے دوران ہوئی۔ وہاں ایک مسحور کردینے والی حسن کی مالک پارسی خاتون بھی موجود تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ فارسی زبان کے ایک مشہور تعلیمی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز معلمہ ہے۔ اس خاتون نے رومی اور اقبال کے بے شمار اشعار سناکر مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اقبال کی فارسی ’’مولائے روم‘‘ سے کہیں زیادہ بہتر تھی۔ اس کی معلمانہ داد نے میری حیرت کو شرمساری میں تبدیل کردیا۔ لاہور میں پیدا ہوا میں بدنصیب ’’اقبال لہوری‘‘ کا ایک فارسی شعر بھی اس محفل میں سنانے کے قابل نہیں تھا۔
یہاں تک پہنچنے کے بعد خیال آیا کہ عمر کے ساتھ میں واقعی سٹھیاگیا ہوں۔ کالم کا آغاز اپنی ماں کے ذکر سے کیا۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ انہیں لاہور کے بارہ دروازوں کے اندر استعمال ہونے والی پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان میں اظہار کی قدرت حاصل نہ تھی۔ وہ کسی سکول بھی نہیں گئی تھیں۔ کسی ’’ماسی سکینہ‘‘ سے کلام پاک ضرور پڑھاتھا اور اپنی صبح کا آغاز نماز کے بعد دھیمی آواز میںاس کی تلاوت سے کیا کرتی تھیں۔
میرے ساتھ گفتگو میں البتہ وہ اکثر زندگی کے پیچیدہ ترین معاملات کے بارے میں فلسفیانہ رویہ اختیار کرتی سنائی دیتیں۔ اپنی رائے کی حمایت میں ان کے پاس دلائل نہیں محاورے یا روزمرہّ زبان کی کچھ اصطلاحیں ہوا کرتی تھیں۔ آج بھی کسی بہت گہرے نظر آنے والے معاملے پر انگریزی یا اُردو میں لکھنا چاہوں تو ذہن میں سب سے پہلے کوئی ایسا لفظ یا محاورہ اُبھر کر وہاں جم سا جاتا ہے جو میری ماں نے استعمال کیا ہوتا ہے۔
ہزارے کے ضمنی انتخاب کے بعد عمران خان نے ریحام بی بی کے بارے میں جو فیصلہ کیا لکھنا میں اس کے بارے میں چاہ رہا تھا۔ لکھنے بیٹھا تو فوراََ اپنی ماں کی پسندیدہ دو اصطلاحیں یاد آئیں۔ ایک کا تعلق ’’اوکات (اوقات)‘‘ وغیرہ سے ہے اور دوسرا ذکر کرتا ہے کسی خالی ’’بھانڈے‘‘ (برتن) کا۔ میں وہ دونوں استعمال کرنے سے گھبرا گیا۔ اور آج کی روٹی آج ہی کمانے کے لئے بیکٹ سے غالب اور وہاں سے اقبال تک چلاگیا۔ جو بات کہنا تھی وہ کہہ نہ سکا۔ مگراختتام تک پہنچتے ہوئے ان دنوں انگریزی کی ایک اور مقبول اصطلاح بھی یاد آگئی OTT۔ یہ مخفف ہے Over The Topکا۔ بس یہ کہہ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ شاید ریحام بی بی حالیہ چند دنوں میں ضرورت سے زیادہ OTTہوگئی تھیں۔

مزیدخبریں