اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) بنگلہ دیش کی حکومت نیشنل بینک آف پاکستان ڈھاکہ کے مالی سکینڈل میں ملوث اپنے61 باشندوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ این بی پی ڈھاکہ میں ساڑھے 18 ارب روپے کا مالی فراڈ ہوا تھا۔ یہ بات سینٹ کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کو نیشنل بنک کے صدر سید احمد اقبال اشرف نے بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے فراڈ میں ملوث 61 بنگلہ دیشی باشندوں کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔ ہم ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائیں گے اور بنگلہ دیش کی عدالتوں میں مقدمات لڑیں گے۔ تاہم بنگلہ دیش کی حکومت اپنے باشندوں کو تحفظ دے رہی ہے۔ ڈوبی رقم واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم اس کا امکان بہت کم ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے فراڈ کے سلسلے میں پاکستان سے آڈیٹرز کو ویزا دینے سے انکار کیا۔ جبکہ بینک کی ایک اعلی افسر کو ڈھاکہ سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ نیب بھی اس سکینڈل کی تحقیقات کر رہا ہے۔ سینیٹ کمیٹی کے ارکان نے سکینڈل پر شدید تحفظات ظاہر کئے۔ بنک کے اہلکاروں نے کمیٹی اجلاس میں انکشاف کیا کہ 6 لاکھ گھوسٹ پنشنرز کا گزشتہ سال سراغ لگایا گیا۔ پنشنرز وفات پا چکے تھے تاہم ان کے خاندان پنشن وصول کر رہے تھے۔ گھوسٹ پنشنر اس وقت سامنے آئے جب پنشنرز کے اکاؤنٹ کھولے گئے۔ بائیو میٹرک عمل کے آغاز سے پنشنرز کی تعداد کم ہو جائے گی۔ گھوسٹ پنشنرز کا تعلق وفاقی حکومت ملٹری اور ای او بی آئی سے تھا۔ اجلاس میں موجود اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے نمائندے نے گھوسٹ پنشنرز کی اتنی بڑی تعداد سے عدم اتفاق کیا اور کہا ہے تعداد اس قدر نہیں ہو سکتی۔