پچھلے مہینے عید الفطر تھی جو حسب ِ روایت منائی گئی۔ عید کی لمبی چھٹیاں ختم ہوتے ہی سکولوں، بازاروں ، میڈیا ہاوسز، فوجی تنصیبات، پیرا ملٹری اور پولیس کے اندر ایک تحرک نظر آنے لگا۔ہر جگہ اپنے اپنے انداز میں ’’عید ِ آزادی‘‘ کی تیاریاں شروع ہوگئیں خصوصاً یکم اگست کے بعد تو ملک کے طول و عرض میں پرچموں کے سٹال لگ گئے ۔پرچم رنگ کے کپڑے بننے شروع ہوگئے اور تیاریوں میں ہر روز نکھار آتا چلا گیا۔
بدقسمتی سے 8اگست کو سانحہ کوئٹہ رونما ہوا جس میں 97افراد، بشمول 61وکلاء کے، شہید اور سوا سو کے لگ بھگ زخمی ہو گئے۔پوری قوم سوگوار تھی۔وزیر اعظم، آرمی چیف اور دیگر اکابرین موقع پر پہنچے اور ایک نئے عزم کے ساتھ دہشتگردی کیخلاف کاروائی تیز کرنے کا عمل شروع کر دیا جو کہ جاری ہے۔اس دن ہر پاکستانی کے اندر سے درد اٹھ رہا تھا۔اور شائد اسی وجہ سے قربانیاں پیش کرتی ہوئی فورسز اور 15سال سے دنیا کی مشہور ایجنسیوں کو ناکام بنانے والی اپنی ایجنسیوں کے خلاف بھی بیانات سنائی دئیے۔تاہم جلد ہی اہل وطن نے محسوس کیا کہ لڑائی میں کبھی دشمن کا وار بھی کارگر ہوجاتا ہے۔لہٰذا استقامت کے ساتھ ہی وطن عزیز کو بچایا جاسکتا ہے۔
اس صابر قوم نے پھر سے عید آزادی کی تیاریاں شروع کردیں اور 14اگست عید الفطر سے زیادہ ولولے کے ساتھ منایا۔ ہاں شہیدوں کو ایک لمحہ بھی کوئی نہ بھولا۔بالکل جیسے مسلمان عید والے دن صبح کو اپنے پیاروں کی قبروں پر آنسو گراکر عید کی مسکراہٹوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔13/14اگست نصف شب کو میں نے لاہور شہر کے کچھ حصوں کا چکر لگایا۔ مناظر چاند رات سے کسی طرح کم نہ تھے۔واپس آکر TV اور سوشل میڈیاپر دیکھا تو دوسرے تمام شہروں اور قصبوں کاماحول بھی خون گرما دینے والا تھا۔صبح کو جگہ جگہ تقریبات ہوئیں جو سب ایک زندہ قوم کی صحیح عکاسی کررہی تھیں۔
شام سات بجے مجھے ایک چینل پر لائیو پروگرام کیلئے پہنچنا تھا۔گھر سے کافی زیادہ وقت پہلے روانہ ہوا مگر مال روڈ پر 3/4کلومیٹر کا سفر میرے اندازے سے کہیں زیادہ وقت لے گیا۔زیروسپیڈ پر چلتے ہوئے میں نو جوانوں کو بڑے قریب سے دیکھ رہا تھا۔انکے چہروں پر رات اور سارے دن کی تھکن بالکل نہ تھی۔ زیادہ تر جوان لو ئرار مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے۔ ذہن میں سوال اٹھا کہ یہ تو وہی لوگ ہیں۔جنہیں بنیادی شہری حقوق پربھی کوئی حق نہیں۔ جو انصاف ، تعلیم، روزگار، دوائی تک کو ترستے رہتے ہیں۔ پھرانکے چہروں پر آزادی کی چمک اور جسموں میں پاکستان کی محبت میں ابلتا خون کیسے؟ تو دل نے جواب دیا کہ اسی کو عشق کہتے ہیں۔دہشتگردوں سے بر سرپیکار جوان ، چیک پوسٹ پر دھماکے کا مواد چیک کرنیوالے سپاہی یا اس پرچم میں لپٹے ہوئے گھر لوٹنے والے فرزندانِ پاکستان کے پاس یہی وطن سے عشق ہی تو ہوتا ہے جس سے انکی زندگی سرفراز ہوتی ہے۔میں کافی دیر تک اس بِھیڑ میں پھنسا رہا مگر ذرہ بھر بھی نہ اکتایا۔ ایک نشہ سا محسوس ہو رہا تھا۔یقین ہوچکا تھا کہ ’’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے‘‘۔
ادھرہمارے کشمیری بھائی جو پچھلے دو ماہ میں سو کے لگ بھگ لاشیں اٹھا چکے ہیںاوراس سے زیادہ کی آنکھیں چھروّں سے زخمی اور بینائی سے محروم ہو چکی ہیں، انہوں نے بھی پاکستان کیساتھ عید آزادی جوش و جذبے سے منائی۔ ہر طرف پاکستان زندہ باد کے نعرے گونجے اور سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔ بھارتی فوجیوں سے جگہ جگہ تصادم ہوتا رہا مگر وہ اپنے عزائم پر قائم رہے۔
ہندوستان کا ہمارے اس یومِِ ِآزادی پر روّیہ پہلے سے مختلف اور جارحانہ تھا۔اس نے 14اگست کو پیرنیزہ کے مقام پر لائین آف کنٹرول کیساتھ ہماری آبادیوں کو بلا اشتعال فائرنگ کا نشانہ بنایا۔پھر جب پاکستانی پرچم لہرانے والے کشمیر یوں نے 15اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلا ن کردیا تو مودی نے بوکھلا کر اپنی قوم کو جسطرح خطاب کیا اس میںوہ ویراعظم کی بجائے ایک دہشت گرد کے روپ میں دنیا کے سامنے آیا۔ ہندوستان کے اہلِ قلم ونظر بھی اس پر خاصی تنقید کر رہے ہیں جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کشمیر میں ظلم روا رکھنے کے سبب بھارت میں اپنے سارے دفاتر بند کر دئیے ہیں۔اس نے کشمیر کو بلوچستان اور گلگت بلتستان کے برابر لانے کی کوشش کی جن میں کوئی مماثلت ہو ہی نہیں سکتی۔یہ صوبے ہمارے ملک کا حصہ ہیں جبکہ کشمیر کا کیس بطور متنازعہ خطہ خود مسٹر نہرو اقوام متحدہ میں لیکر گئے تھے۔ پھر ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کشمیر وہ واحد ریاست ہے جس کو خصوصی طور پر اپنا آئین رکھنے کا حق حاصل ہے جو کسی اور ریاست کو نہیں۔ جموں و کشمیر کا آئین 17نومبر1956کو بنا۔اگرچہ 2002ء تک اس میں 29ترامیم کی جاچکی ہیں مگر اسکی علیحدہ پوزیشن برقرار ہے۔مودی کی تقریر کے جواب میں حکومت گلگت بلتستان اور چیف منسٹر بلوچستان نے بھی منہ توڑ بیانات دیئے ہیں۔ مودی نے یہ الزام لگایا کہ یہاں کے لوگوں نے اس سے رابطہ کیا ہے کہ وہ یہاں پر ہونیوالے مظالم کو دنیا کے سامنے اٹھائیں جو کہ بالکل بے بنیاد ہے۔ہوسکتا ہے اچکزئی کا ’را‘ کو بلوچستان سے کلین چٹ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہ ہو۔
برصغیر میں 14اور15اگست کے دن ہونیوالی سرگرمیوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ (i)پاکستان ماشاء اللہ پرعزم محبِ وطن نوجوانوں سے بھرپور ہے۔ (ii)کشمیریوں میں آزادی کی جو نئی لہر جاگی ہے یہ دیرپا ادرموثر ہوگی۔(iii)بھارت خالصتاً امریکی چھتری میں جانے کی وجہ سے چین، پاکستان ،روس،ایران، افغانستان اور ترکی پر مشتمل ابھرتی ہوئی علاقائی الائنس سے علیحدہ ہوتے ہوئے فرسٹریشن کا شکار ہے۔ اس پر مستزاد مودی کی کوتاہ نظری اسے اندرونی طور پر کافی مشکلات سے دوچار کرنیوالی ہے جن میں کشمیر کی تحریک سرفہرست ہوگی۔(iv)بھارت کی سفارتکاری اور پروپیگنڈہ مشینری خاصی منظم ہے۔اسکا توڑ ہمیں اس سے بہتر اور جارح سفارتکاری کی صورت میں سامنے لانا ہے۔ہم دنیا کو کیوں نہیں سمجھا سکتے کہ بھارت کو اگر دہشت گردی کا خطرہ تھا تو وہ اس فورس کا حصّہ کیوں نہ بنا جو سات سمندر پار کے 44ملکوں سے آکر اس خطے میں دہشتگردی کیخلاف لڑ رہی تھی۔ ہم کیوں یہ حقیقت آشکار نہیںکرتے کہ اسکی وجہ بھارت کا افغانستان میں ہمارے خلاف دہشتگردی کرواناتھاروکنا نہیں۔
مجھے خود آج تک یہ کوئی نہیں بتا سکا کہ ہم بھارت سے دوستی کی بھیک کیوں مانگتے رہتے ہیں۔نہ تو اسکے پاس ہمارے لئے کوئی سلک روٹ ہے اور نہ ہی اسکے ساتھ کسی بھی ٹریڈ میں ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔ہمیں اپنے ملک میں انڈین لَورز کوسمجھانا چاہیے کہ مسلم کش فسادات مئی 1947ء میں ہی شروع ہوگئے تھے۔ یعنی صدیوں اکٹھے رہنے والوں کے اندر اسقدر دشمنی چھپی ہوئی تھی کہ موقع ملتے ہی کوئی قدریں بھی قتل و غارت گری کو نہ روک سکیں۔ یہ خونیں واقعات پاکستان بننے کی وجہ سے شروع نہیں ہوئے تھے بلکہ پہلے ہی سے شروع ہوکر دو قومی نظریے کی تصدیق بنے۔ہندوستانیوں کے دل ہمارے لئے آج اس سے بھی بدتر جذبات رکھتے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کو صحیح رہنمائی اور کشمیر یوں کو ہماری وفاداری چاہیے جبکہ فرسٹریشن کے مارے بھارت سے چوکنا ہوکر ہمیں اپنی سفارتکاری اور عالمی سطح پر لابی کو جارحانہ انداز میں بہتر کرنا ہوگا۔
’’پا کستان کا یومِ آزادی، کشمیر اور ہندوستان‘‘
Aug 19, 2016