بڑے فخر کی بات ہے۔ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کوبائیسواں وزیراعظم بھی مل گیا ہے۔ ہر بار الیکشن کا میلہ سجتا ہے، ڈھول کی تھاپ پر شروع ہونے والی انتخابی مہم وزیراعظم ہاو¿س میں فوجی بینڈ پر منتج ہوتی ہے۔مگر اس کے بعد جس طریقے سے ہر وزیراعظم کا بینڈ بجایا جاتا ہے، وہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ جس ملک میں 36 سال ڈنڈے کی حکومت کچھ نہیں کر سکی،اس ملک میں اب بَلے کی حکومت آزمانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کوئی زبان کے تیر چلاتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح تخت سے تختہ دار تک پہنچ گیا تو کوئی استری شدہ خاکی وردی اپنے کالر کے پیچھے لٹکائے سائیکل کے پیڈل گھماتے چودھری شجاعت کی طرح وزیراعظم کہلایا۔ ہر ایک کی شخصیت دوسرے سے مختلف تھی اور ہر وزیراعظم ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آیا بھی نہیں۔کوئی بھٹو کی طرح چرب زبان دانشمند تھا تو کوئی میر ظفر اللہ جمالی کی مانند بھاری بھر کم مگر نظریے کا ہلکا ، جو پارلیمنٹ میں ایک ووٹ کی اینٹ کے سہارے شاہکاربنا رہا۔
جب ہم بڑے فخر سے عمران خان کو اپنا بائیسواں وزیراعظم کہتے ہیں تو کیا ہم اتنے ہی فخر کے ساتھ اپنے اکیس وزرائے اعظم کیساتھ ہونیوالے سلوک کو بیان کر سکتے ہیں؟سچ تو یہ ہے کہ عمران خان جس قسم کے وعدے کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں ، اگر وہ پورے ہوئے تو وہ اپنی "ٹائپ" کے پہلے وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں وگرنہ اس قوم کو بائیسویں کے بعد تئیسواں اور تئیسویں کے بعد چوبیسواں اور اسی طرح ایسے کئی اور وزیراعظم ملتے رہیں گےاور یہی تبدیلیاں ہی ہمارا مقدر بنتی رہیں گی۔ عمران خان جس انداز سے اقتدار میں آئے ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے وزرائے اعظم اسی طرح اقتدار میں آتے رہے ہیں جسکی ایک مثال خود نواز شریف بھی ہیں۔انہیں بھی دیر سے سمجھ آئی ہے۔ اب کی بار بھی کچھ انوکھا نہیں ہوا ماسوائے اسکے کہ محمد خان جونیجو جیسے کٹھ پتلی وزیراعظم کو ایک فوجی حکمران لے کر آیا تھا اور اب کی بار سنگین الزام ہے کہ خان صاحب کو لانے والے بظاہر حکومت میں نہیں ماتحت ہیں۔
ابھی کچھ ہی دنوں میں یہ پتہ چل جائے گا کہ عمران خان اس ملک کے محض بائیسویں وزیراعظم ہی رہیں گے یا پھر کچھ مختلف کر کے اپنی قسم کے پہلے وزیراعظم بن جائینگے اور کیا خان صاحب اپنے سے پہلے لائے گئے اکیس وزرائے اعظم کی طرح بے بس اور بے اختیار کر دئیے جائینگے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد کی گئی خان صاحب کی تقریر سے لگتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اپوزیشن لیڈر کے کنٹینر سے اتر کر وزارت عظمیٰ کے کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں۔ خان صاحب کے انتخابی منشور میں بہت سے اہداف ہیں مگر ا±س تقریر میں وہ ابھی بھی نواز شریف اور نون لیگ کو ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف نعرہ بازی ایک مقبول سیاسی عمل ہے۔ خان صاحب کی بطور وزیراعظم اسمبلی میں کی گئی تقریر جنرل مشرف کی بارہ اکتوبر 1999 کی بغاوت کے بعد کی جانےوالی تقریر سے کچھ زیادہ مختلف نہیں لگی۔ ایک فوجی حکمران ہوتے ہوئے بھی جنرل مشرف نے احتساب کا جو نعرہ لگایا تھا وہ اس پر پورا نہ اتر سکے۔ عمران خان کہتے ہیں چوروں اور ڈاکوو¿ں کو این آر او نہیں ملے گا۔ این آراو جیسی غیر آئینی سہولت آخر ایک منتخب وزیراعظم کسی کو کیسے دے سکتا ہے۔ اور پھر جب خان صاحب خبردار کرتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوو¿ں کو نہیں چھوڑا جائے گا ۔ جس آئین کی پاسداری کرنے کا حلف خان صاحب نے اٹھایا ہے وہ اس قسم کے چوکے چھکے مارنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اگر ہماری عدالتیں، پولیس اور نیب واقعی آزاد ہوئے تو انکے ہوتے ہوئے این آر او ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح جب خان صاحب تمام انتخابی حلقے دوبارہ کھولنے کی پیشکش کرتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ اختیار صرف الیکشن کمیشن اور آئینی عدالتوں کا ہے۔
امید ہے کہ عمران خان کچھ ایسا کر کے دکھائیں گے کہ ان کو تاریخ میں محض پہلے اور آخری کرکٹر وزیراعظم کے طور پر یاد نہ رکھا جائے۔ ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہاکی کے کھلاڑی تو سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی بھی رہے ہیں مگر آج ان کو محض پندرہویں وزیراعظم کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ سنیل دت کی ایک مشہور بھارتی فلم کا عنوان تھا "ایک گناہ اور سہی۔"اور اکہتر سال سے جوسیاسی فلم کامیابی سے پاکستان میں چل رہی ہے اس کا عنوان بجا طور پر یہ ہو سکتا ہے "ایک وزیراعظم اور سہی۔"