امر یکہ کے ’’ عیسائی طالبان‘‘

آپ نے افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور بھارت کے زعفرانی طالبان کا نام تو سنا ہوگا لیکن امریکہ کے ’’عیسائی طالبان‘‘ کا نام شائد پہلے نہ سنا ہوگا۔ میں نے بھی حال ہی میں ایک امریکی جریدے میں اس موضوع پہ ایک رپورٹ کے ذریعہ اس کا نام سنا۔ امریکہ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اب بھی سفید فام امریکیوں کے دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہونے والے واقعات کو دہشت گردی یا شدت پسندی کا نام دینے سے کتراتے ہیں۔وہ انہیں’’ نفرت کے جرم‘‘Hate Crimes یا پھر ’’ بدی کے جرائم ‘‘Act of Evilکانام دیتے ہیں حالانکہ امریکہ کے گورے باشندے جنکا مذہب عیسائیت ہے، قتل اور تشدد کی متعدد کا روائیوں میں ملوث پائے گئے اور بیسئیوں امریکیوں کو قتل کیا۔
امریکہ میں گھریلو انتہا پسندی کی دو وجوہات ہیں۔’’قومی ‘‘ اور ’’خارجی‘‘ (اسلامی شدت، بنیاد پرست یا انتہا پسندی ) تاہم امریکی حکومت کے دفتر احتساب US Government Accountablity Office کی شماریات کے مطابق 2001ء تا2017ء یعنی گزشتہ 16برسوں میں حملوں میںسے74 فیصد حملے ’’قومی‘‘ شدت پسند عناصر کی جانب سے کئے گئے۔ یہ16برس وہ ہیں جن کے دوران امریکہ میں اس اسلامی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا لیکن اعداد و شمار اس دعوے کی حمائت نہیں کرتے۔ امریکہ کے اس دوہرے معیار پر عالمی برادری کو استفسار کرنا چاہیے خصوصاً ان ممالک کو بشمول پاکستان جو امریکہ کی جانب سے مبینہ طورپر دہشت گردی کی حمائت پر امریکی تنقید کا ہدف بنتے ہیں۔انتہاپسندی کو اپنانے اور کسی موہوم سے سبب کے نام قتل وغارت گری مچانے کے گھنائونے فعل کے مرتکب صرف مسلمان ، عرب یا تارکین وطن ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ میں انتہا پسند’’عیسائی طالبان‘‘ قتل کا بازار گرم کرنے میں مصروف ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی دفاع کے صدر مقام پینٹا گون کی جانب سے عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کو ارسال کئے گئے آزادی پیکج پہ پابندی عائد کردی گئی۔ان مبینہ ’’آزادی پیکج‘‘میں انگریزی اور عربی زبان میں عیسائیوں کی مذہبی کتاب بائبل کے نسخے، عیسائت کا مذہب قبول کرنے کیلئے ہدایات اور ایک کمپیوٹر کھیل بنام’’ یسوع مسیح کے سپاہی اور شیطانی قوتوں کے مابین جنگ‘‘ موجود تھے۔
عراق میں مسلمانوں کو اپنا مذہب ترک کرکے عیسائیت قبول کرنے کی سازش اس وجہ سے ناکام بنادی گئی کہ مکی وائنٹائن نامی ایک شخصیت جو امریکی مسلح افواج میں چرچ اور سیاست کے درمیان فاصلہ برقرار رکھتے ہیں اور فوجی مذہبی آزادی فائونڈیشن کے بانی اور صدر ہیں۔مکی وائنٹائن امریکی ائرفور س اکیڈمی سے1977ء میں گرایجویٹ ہوئے اور دس برس تک جج ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پہ فائز رہے اور فوجی اٹارنی اور وکیل استغاثہ کے فرائض انجام دیتے رہے۔ انہوں نے ریپلبکن پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور تین برس تک صدر ونلڈ ریگن کی انتظامیہ میں وہائٹ ہاوس میں قانونی مشیر رہے اور ایران ۔ کونٹرسکینڈل کے مقدمات میں حکومت کیلئے قانونی مشاورت فراہم کرتے رہے ۔ نیویارک کے سینٹ مارٹنز پریس نے حال ہی میں مکی وائٹائن کی نئی کتاب ’’جب خدا ہمارے سا تھ ہو ‘‘With God on Our Sideشائع کی۔ اس کتاب میں امریکی مسلح افواج میں مذہبی نارواداری اور مذہبی تعصب جیسے مسائل اجاگر کئے گئے ہیں۔ معروف مصنف مکی وائنٹائن کا کہنا کہ کولوریڈواسپرنگس میں واقع امریکی فضائیہ کی کااکیڈمی میںعیسائی انتہا پسندوں نے پڑائوڈال رکھا ہے۔ انہوں نے اس امر پہ روشنی ڈالی کہ امریکی ائرفورس اکیڈمی میں کوئی سو سے زائد بنیاد پرست عیسائی فعال جو عیسائی طالبان کہلانے کے مستحق ہیں انہوں نے امریکہ کی737 ملٹری تربیتی اداروں میں اپنا پروگرام عام کیا ہے ۔ انہوں نے آگاہ کیا ہے کہ امریکہ کی آبادی کا12.6 فیصد حصہ یعنی 38 ملین افراد ’عیسائی طالبان ‘ ہیں۔ امریکی مسلح افواج میں ان عیسائی طالبان کااتنی بھاری تعداد میں سرائت کرجانا باعث تشویش ہے۔ یہ خود کو عیسائی طالبان نہیں کہتے بلکہ دوسرے ناموں سے فعال ہیں مثلاآفسیرز کرسچین فیلو شپ جو افسران کیلئے ہے اور ’’کرسچین میلٹری فیلو شپ جو غیر کمیشنڈ ارکان کیلئے مختص ہے۔ اس تنظیم کے تین مقاصد ہیں: اول یہ کہ وہ امریکی مسلح افواج کو روحانی طورپر تبدیل شدہ دیکھنا چاہتے ہیں۔دوسرے یہ کہ وردی میں مسلح افواج میں یسوع مسیح ؒ کے ایلچی کے طورپر گزشتہ2000 برس سے وہ ناکام ہیں تیسرے یہ کی وہ روح القدس کی جانب سے طاقتور ہونا چاہتے ہیں۔ مکی وائنٹائن کے مطابق یہ انتہا پسند عیسائی ہمارے متحدہ امریکہ کے آئین، سالمیت کے تحفظ کیلئے جو حلف اٹھایا ہے، اس سے بھی زیادہ اپنے ان سہ رکنی اہداف کوا ہمیت دیتے ہیں۔ امریکی مسلح افواج کی انتظامیہ اور ماہرین کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ انتہاپسند عیسائی عراق میں امریکی فوجوں اور امریکی مسلح افواج کے صدر مقام پنیٹاگون تک رسائی حاصل کرکے فلمیں بھی بناتے ہیں اور بے دھڑک اپنا پیغام عام کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں پینٹاگون کیخلاف قانونی کارروائی بھی ہوگی کہ یہ انتہاپسند عیسائی جوخود کویسومسیح کے سفیر کہلواتے ہیں ببانگ دہل اپنا انتہا پسند پیغام پھیلا رہے ہیں۔یشوع مسیح ؒ کے سفیر کافی عرصے تک خاموشی سے ریاستی محکمہ میں اپنا پیغام پھیلا رہے تھے۔
مکی وائنٹائن کیمطابق اگر آپ MilitaryReligiousFreedom.org پہ جائیں تو آپ کو 11منٹ کی ایک ویڈیو فلم ملے گی۔ اس ویڈیو کے آغاز میں یسوع مسیح کے سفیر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پینٹاگون کی راہدرایوں میں آپ کو25,000 ایسے مرد و خواتین ملیں گے جو روزانہ صبح کی نماز اور عبادت اور بائبل کی تعلیمات کے سیشن کے دوران یسوع مسیح کا پیغام پہنچا رہے ہیں یہ حیران کن دعویٰ ہے اور ہوسکتاہے کہ مبالغہ آرائی پرمبنی ہوکہ امریکی مسلح افواج کے سینئر افسران جنہوں نے امریکی آئین کی پاسدارای اور حفاظت کا حلف اٹھایا ہو وہ بائبل کے ایک خاص نظریہ سے متاثر گروپ کی حمایت کرتے ہوں۔اس پر یشان کن صورتحال کے پیش نظر امریکی محکمہ دفاع کے سینئر حکام کوعدم اطمینان کا اظہار کرنا چاہیے اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ جس سے یہ’’ عیسائی طالبان‘‘ انتہا پسندی کے ذریعہ اپنی ہی فوج کے ارکان کو غیر مستحکم کر رہے ہوں۔ پاکستان پہ امریکہ بارہا یہ الزامات عائد کرتا ہے کہ ملک میں شدت پسندی اور انتہاء پسندی پھیل رہی جو پاکستان کی مسلح افواج میں بھی سرائت کرگئی ہے۔ امریکی حکام اس خدشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ یہ انتہا پسند پاکستان کے ایٹمی ہتھیار چرا کر پوری دنیا کو غیر محفوظ کرسکتے ہیں لیکن امریکہ جسکے پاس دنیا کے سب سے زیادہ مہلک ہتھیار جن میں ایٹمی ہتھیار سرفہرست ہیں وہ ان ’’عیسائی طالبان ‘‘ کے ہاتھ میں یوں ہیں جیسے بندر کے ہاتھ میں ناریل وہ جب چاہے کسی کے سر پہ دے مارے۔ مکی وائنٹائن جو خود سابق فوجی ہونے کے علاوہ معروف قانون دان اور مصنف ہے دھڑلے سے کہتا ہے کہ ہمارا واسطہ’’ عیسائی طالبان‘‘ سے ہے وہ اس نام کو پسند نہیں کرتے لیکن یہ تلخ حقیقت ہے۔ کرس ہیجیزChris Hedges کی کتاب ’’ امریکی فاشٹ ،دائیں بازو عیسائی اور امریکہ کے خلاف جنگAmerican Fascist: The Christian Right and the war on America میں قابل احترام مصنف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دائیں بازو عیسائی فاشٹ ہیں۔میر ا سب سے چھوٹا بیٹا امریکی ائرفورس اکیڈمی سے تین ماہ قبل کمیشن حاصل کرچکا ہے۔ یہ ہمارے خاندان کی تیسری نسل ہے جو امریکہ کی دفاع پہ مامور ہے۔ جب میں کہتا ہوں کہ امریکہ کو ’’عیسائی طالبان‘‘ سے خطرہ ہے حکام کو اسکا نوٹس لینا چاہیے؟ کیا اب بھی امریکہ اپنے درمیان مذہبی شدت پسندوں کو نظر انداز کرکے دوسروں کو تنقید کانشانہ بناتا رہے گا؟

ای پیپر دی نیشن