سری نگر، نئی دہلی (نوائے وقت رپورٹ، بی بی سی) مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج نے درندوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کشمیری رہنما شہلا خورشید نے کہا ہے کہ شوپیاں کے علاقے میں 4 کشمیریوں کو فوجی کیمپ میں بلا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد کے دوران مائیک لگا کر پورے علاقے کو ان لوگوں کی چیخ و پکار سنوائی گئی ، لوگوں کو چیے و پکار کی آواز سنوانے کا مقصد علاقے میں دہشت پھیلانا تھا۔ اس واقعہ سے پورے علاقے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی گھنائونی سازش بے نقاب ہوگئی۔ امریکی میڈیا کے مطابق غیرملکی مہاجرین کے نام پر مسلمانوں کو حراست میں لینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ مودی کے فاشسٹ اقدامات سے بھارت میں مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ ہزاروں افراد کو غیرقانونی تارکین وطن قرار دے کر حراست میں لیا جاچکا ہے۔ زیرحراست افراد میں بھارتی فوج کے سابق مسلمان اہلکار بھی شامل ہیں۔ آسام میں ایک ہی گھر کے کچھ افراد بھارتی اور کچھ مہاجر قرار دیدیئے گئے۔ اب تک 35 لاکھ مسلمانوں سے بھارتی شہریت چھین لی گئی۔ مسلمان اپنے خاندان والوں سے الگ ہونے کے ڈر سے خودکشیاں کرنے لگے۔ آسام میں مودی کے مخالفین کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ مودی سرکار مذہب کی تبدیلی کے خلاف بھی بل پیش کرنے جارہی ہے۔ تاریخ کی نصابی کتابوں سے بھی مسلمانوں کو نکالا جارہا ہے۔ بھارت میں کئی ریاستوں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے لیکن کشمیر کا انضمام صرف مسلم اکثریت ہونے کی بنا پر کیا گیا۔ لندن سکول آف اِکنامکس میں عالمی سیاسیات کی پروفیسر سمنترا بوس یونین ٹیریٹرز کو دلی کی مونسپیلٹیز یا بلدیات قرار دیتی ہیں۔ایک اور مبصر کے خیال میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بظاہر ریاست کو انڈیا کی دیگر ریاستوں کے برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے لیکن اس طرح مودی حکومت نے انڈیا کے نازک وفاقی توازن کو خراب کر دیا ہے۔آئین کی شق 370 کی جو ریاست کو خصوصی حیثیت کی آئینی ضمانت فراہم کرتی تھی، نوعیت کئی لحاظ سے علامتی سی ہی تھی، کیونکہ سال ہا سال سے جاری رہنے والے صدارتی حکم ناموں نے پہلے ہی ان اختیارات کو ختم کر دیا تھا جن کی اس شق میں ضمانت دی گئی تھی۔