لاہور(حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) سابق چیف سلیکٹر عبدالقادر کا کہنا ہے کہ محکمانہ کرکٹ کا خاتمہ ظلم ہے، احسان مانی پس پردہ رہ کر سب معاملات کو کنٹرول کر رہے ہیں، بھاری تنخواہوں پر افسران کی تعیناتی ہو رہی ہے دوسری طرف کرکٹرز کی ملازمتیں ختم کی جا رہی ہیں، کیا پورے پاکستان میں کوئی قابل شخص نہیں جو پی سی بی کو چلا سکے، احسان مانی جتنا چاہیں بچنے کی کوشش کریں ناکامی پر ہدف تنقید وہی ہوں گے، کیا صرف نجم سیٹھی کا استعفیٰ تبدیلی ہے، علاقائی ٹیموں کے میچز دیکھنے بھی کوئی نہیں آئے گا، برسوں سے ناکام افسران آج بھی پی سی بی میں موجو د ہیں، محکموں نے پاکستان کو عظیم کھلاڑی دیے، چربہ نظام پاکستان کی کرکٹ پر لاگو کر دیا گیا ہے، نئے کرکٹرز کہاں سے آئیں گے، ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کی ذمہ داری ایک شخص کو نہیں دینی چاہیے، کرکٹ بورڈ لوگوں کو منہ بند کرنے کے لیے ملازمت دیتا ہے، محکمہ جاتی کرکٹ بند ہونے سے محکموں میں قائم سپورٹس ڈیپارٹمنٹ بند ہوئے تو ہزاروں خاندان متاثر ہونگے، محکموں کے کرکٹرز علاقائی ٹیموں میں سلیکٹ ہونگے تو نئے کرکٹرز کہاں سے آئیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملکی کرکٹ پر ظلم ہو رہا ہو تو صرف وزیر اعظم کا چہرہ دیکھ کر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ محمکہ جاتی کرکٹ کی خامیاں بتائے بغیر بند کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کرکٹ کے شروع ہونے سے آج تک کھیل کو فروغ ملا ہے، کرکٹرز ملے ہیں، اسے بند کرنے کے بجائے خامیاں تو بتا دیتے۔ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان کو کسی ملک کے نظام کی نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ علاقائی بنیادوں پر بننے والی ٹیموں کے میچوں کو دیکھنے بھی کوئی نہیں آئے گا۔ پاکستان میں کرکٹرز کا اصل مسئلہ ملازمتیں ہیں جب کھیل کے مواقع محدود ہو جائیں گے تو کھیلنے والوں کی تعداد بھی کم ہوتی چلی جائے گی۔ بڑی عمر کے کرکٹرز علاقائی ٹیموں میں کھیلتے نظر آئیں گے۔ مسائل اور خامیوں کی نشاندہی کیے بغیر نظام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ برسوں سے کرکٹ کے انتظامی معاملات چلا رہے ہیں وہ آج بھی کرکٹ بورڈ میں موجود ہیں۔ پہلے ان کا تو احتساب کیا جائے۔ وسیم خان کو انگلینڈ سے لا کر ایم ڈی لگا دیا ہے کون سا ایسا کام ہے جو وہ کریں گے۔ نقل شدہ نظام کو لاگو کرنے کے لیے لاکھوں روپے ماہانہ دیے جائیں گے۔ یہ پیسہ کرکٹرز کا ہے۔ احسان مانی ایک ایم ڈی لگا کر خود بچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن کامیابی یا ناکامی کی صورت میں وہی ہدف تنقید رہیں گے۔ کرکٹ بورڈ میں سب افسران وہی ہیں جو نجم سیٹھی، شہریار خان، ذکا اشرف اور اعجاز بٹ کے ساتھ کام کر رہے تھے پہلے ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ نظام میں بہتری کے لیے انکی خدمات کیا ہیں، یہ ناکام نظام کا حصہ تھے تو اب بورڈ میں کیوں ہیں۔ کیا نجم سیٹھی کو انا یا ضد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آج بھی کرکٹرز اپنے محکموں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ محکموں نے تیار کرکٹرز قومی ٹیم کو دیے، نئے نظام میں سلیکشن کا طریقہ کار ہی خراب ہے، اس سال ہونے والے مقابلوں کے لیے ٹیموں کا انتخاب کیسے کیا جا رہا ہے۔ کیا انگلینڈ میں چھ کاؤنٹیاں ہیں، کیا آسٹریلیا میں نوجوان معاشی عدم تحفظ کا شکار ہے۔