سپریم کورٹ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جھوٹ بول کرملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جاسکتی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کیس میں یہ نہیں پتہ کہ کس ملزم نےقتل میں کیاکرداراداکیا ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب یہ معلوم نہ ہو کہ قتل کیس میں کس کا کیا کردار ہے تو اس کا فائدہ ملزمان کو ہوتا ہے۔
سر کاری وکیل کا کہنا تھا کہ 1996 میں ضلع لاہور کے علاقے نارواں کوٹ میں ڈکیتی کے دوران شفیقہ بی بی اور اس کے پانچ بچوں کو قتل کر دیا گیا، قتل ہونے والے بچوں میں ایک بچہ دو سال کا بھی تھا، ملزمان کے فنگر پرنٹس اور سر کے بال برآمد ہوئے۔
وکیل ملزمان کے مطابق ملزمان کے خلاف کوئی بھی گواہ موجود نہیں،جھوٹے فنگر پرنٹ بنا کر ملزمان کو پھنسایا گیا۔
جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹ بول کر چار ملزمان کو پھانسی نہیں دلوائی جا سکتی، اس کیس میں پولیس نے وہ کیا جو ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ پولیس کو کرنا چاہیے،ہم ہمیشہ کہتے ہیں ایسے کیسز میں پولیس کوفنگر پرنٹ لینے چاہیں۔
وکیل ملزم نے کہاکہ جب یہ واقعہ ہو اس وقت ملزمان کی عمر 17 اور 18 سال تھی، جبکہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ ملزمان 23 سال سے جیل میں ہیں اور اب آدھی سے زیادہ عمر کاٹ چکے ہیں۔
دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے سزائے موت کے چار ملزمان کی سزا کو 23 سال بعد عمر قید میں تبدیل کر دیا۔
خیال رہے ملزم سرفراز،جاوید، ندیم اور محمد یوصف پر شفیقہ بی بی اور اسکے پانچ بچوں کے قتل میں ملوث تھے، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے چاروں ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔