جعلی اکاؤنٹس کیس میں بڑی پیشرفت: دبئی کا شہری ناصر عبداللہ لوتھا وعدہ معاف گواہ بن گیا

وفاقی احتساب بیورو (نیب) نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت دیگر افراد کے خلاف دائر جعلی اکاؤنٹس کیس میں بڑی کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ دبئی کے شہری اور سمٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ناصر عبداللہ  لوتھا جعلی اکاؤنٹس کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔

جعلی اکاؤنٹس کیس میں چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری، رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور، اومنی گروپ کے سربراہ عبدالغنی مجید سمیت اہم ملزمان نامزد ہیں۔

ذرائع کے مطابق وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ناصر لوتھا کے وارنٹ گرفتاری بھی منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔

 ذرائع کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ناصر عبدالل لوتھا کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے۔

ذرائع کے مطابق ناصر لوتاہ کو عیدالاضحیٰ سے پہلے احتساب عدالت میں بھی پیش کیا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ناصر  لوتھاکے وعدہ معاف گواہ بننے کی درخواست پر حتمی فیصلہ چیئرمین نیب کریں گے۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ نیب نے سمٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سابق چیئرمین ناصر عبداللہ لوتھا کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا ہے۔

ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ ریفرنس میں نامزد ناصر عبداللہ  لوتھا نے دبئی سے پاکستان آکر بیان قلمبند کرایا۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر

منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

 تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتاہ، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصرلوتھاکے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتاہ کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصرہ لوتھاے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔
 

ای پیپر دی نیشن