تحریک انصاف میں حوصلہ شکنی کی روایت،شاہ محمود قریشی اور گذرے دو سال!!!! 

عمران خان ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ تحریک انصاف سے ہے۔ یہ نئی بات نہیں چیئرمین پی ٹی آئی اس پر یقین رکھتے ہیں کہ باہر سے زیادہ نقصان اندر سے پہنچ سکتا ہے۔ یقیناً انہیں احساس ہو گا کہ اردگرد موجود لوگ کیا کرتے رہتے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے بھی عمران خان کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی کو باہر سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس کام کے لیے اندر کے لوگ ہی کافی ہیں۔ پاکستان تحریک کو حکومت میں آئے دو سال ہو چکے ہیں اس دوران بیسیوں واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ عمران خان کا خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ صوبوں اور مرکز میں حکمران جماعت کے لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یہ صورتحال اس لیے بھی پریشان کن ہے کہ ایک ایسی جماعت جسے نوجوان نسل نے سخت محنت اور طویل جدوجہد کے بعد دو بڑی سیاسی جماعتوں کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر تیسری سیاسی جماعت کو ایوانِ اقتدار میں پہنچایا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اگر اس جماعت کے وزراء  آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں گے تو عوام کے مسائل کون حل کرے گا۔ بدقسمتی ہے کہ یہ ان واقعات میں کوئی کمی نہیں آ رہی بلکہ پی ٹی آئی کے اہم افراد مسلسل ایک دوسرے کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔
گذشتہ روز لاہور میں ایک صوبائی وزیر نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ بدتہذیبی کی۔ یہ بنیادی طور پر وزیر اعلیٰ کے منصب کی توہین ہے۔ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اس کی الگ سے انکوائری تو ہونی چاہیے لیکن ایک صوبائی وزیر نے بہرحال وزیر اعلیٰ کے منصب کی توہین کی ہے۔ جب اپنے وزیر اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے مرتبے کا خیال نہیں رکھیں گے، اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا مذاق بنا دیں گے تو دیگر سیاسی جماعتوں کو ایسے عمل سے کیا پیغام جائے گا۔ ایسی بدتمیزی، تلخ کلامی بھلا کہاں چھپتی ہے۔  اتحادی جماعتیں ایسے واقعات کے بعد وزیر اعلیٰ کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں گی جبکہ اپوزیشن کو منفی سیاست کا موقع بھی ملے گا۔ اس واقعے دو پہلوؤں پر بہرحال آزاد و شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ پہلا یہ کہ صوبائی وزیر نے اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے منصب کی توہین کیوں کی۔ دوسرا پہلو کے دونوں کے مابین ایسا کیا چل رہا تھا کہ بات اونچا بولنے اور بدتمیزی تک آن پہنچی۔ وزیراعظم عمران خان کو ذاتی حیثیت میں اس کی انکوائری کرنی چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ بیورو کریسی ان کی بات نہیں سنتی یا تعاون نہیں کرتی جب وزراء  صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کی بات نہیں سنیں گے، ان کا احترام نہیں کریں گے، وزیر اعلیٰ کے منصب کی توہین کریں گے تو بیورو کریسی ایسے وزیروں کی بات کو اہمیت کیوں دے گی۔ جب اپنے وزراء  ہی وزیر اعلیٰ کا احترام نہیں کریں گے تو اپوزیشن سے یہ گلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کا احترام نہیں کرتے یا انہیں ان کا جائز مقام نہیں دیتے۔
اب اس سے بھی زیادہ تباہ کن واقعے کی طرف آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان جن کے بارے میں آئین یہ کہتا ہے کہ وہ وزیراعظم کی ماسٹر وائس ہیں۔ جب وزیراعظم کی یہ ماسٹر وائس اپنے ہی وزیر خارجہ کو عزت نہ دے، ان کے مرتبے کا خیال نہ رکھے تو اس رویے سے نچلی سطح تک کیا پیغام جائے گا۔ اگر کسی کو منع بھی کرنا ہے یا روکنا ہے تو اس کے لیے بھی کئی بہتر اور قابل عزت راستے اور طریقے موجود ہوتے ہیں لیکن جب مرتبے کو نظرانداز کرتے ہوئے حکومت کے ایک اہم ترین اور سینئر سیاستدان کی عزت نہ کر سکیں تو معاملات کیسے چلیں گے۔ اس سے پہلے جہانگیر خان ترین نے بھی وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری کے حوالے سے ایسی باتیں کی تھیں بدقسمتی سے وہ سلسلہ جہانگیر خان ترین تک رکا نہیں بڑھتے بڑھتے وہ وزیر خارجہ تک آن پہنچا ہے دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد کون نشانہ بنتا ہے۔ کیا یہ سب کسی کے اشارے یا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے یا پھر یہ سب کچھ حادثاتی طور پر ہو رہا ہے۔ اگر یہ ارادتاً نہیں ہو رہا تو پھر کیا ایسے غیر معمولی واقعات پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے اکابرین اور کارکنان کو بھی اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے کہ وہ سب مل کر جہانگیر ترین کی برائیاں کرتے رہے، یہ سب مل کر چودھری محمد سرور کو برا بھلا کہتے رہے، یہ سب مل کر اپنی توانائیاں شاہ محمود قریشی کو متنازع بنانے میں صرف کرتے رہے، یہ سب مل کر عبدالعلیم خان کو برا بھلا کہتے اور ان کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ آج تک نہیں سمجھ سکے کہ اتفاق میں برکت ہے اور ہجوم کو جماعت بنانے کے کیے چھوٹے چھوٹے اختلافات اور مفادات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی سے جڑے افراد کے ہاتھ کسی کی برائی کا کمزوری لگ جائے تو سب برائیاں کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں ان میں کسی کے اچھے کام کی تعریف کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی یہ منفی رویے ہی ملک میں مثبت سیاسی اقدار کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنے پرستاروں کے ہجوم کو ایک منظم سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کے لیے کب کام کریں گے۔ ایک طویل سیاسی سفر کے بعد وہ اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے ملک میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کی باریوں کے سلسلے کو توڑا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہم پی ٹی آئی کو ایک منظم سیاسی جماعت میں تبدیل کرنا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو نچلی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک تنظیم سازی پر کام نہیں کیا جائے گا اس وقت تک کارکنان کی جذباتی وابستگی کو تعمیری کاموں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 
چودھری اقبال الدین احمد لکھتے ہیں کہ آئینی طور پرہماری 'آزادی  15اگست' کو ہی  شروع ہونی تھی لیکن قدرت نے ہندو جوتشیوں کے ہاتھوں کچھ ایسا  انتظام کیا کہ  انگریزوں کو پاکستانیوں کو یہ آزادی چودہ اگست یعنی ستائیس رمضان المبارک  کو ہی دینی پڑی۔ اسی دن قائد اعظم کو گورنر جنرل کا حلف اٹھانا پڑا۔ اس طرح یہ بھی  انتظام ہو گیا کہ چودھری رحمت علی نے اگر اس کو حاصل کرنے کا اعلان بذریعہ 'ناؤ آر نیور' بروز عید ا لفطر 1351 ہجری کو کیا تھا تو اللہ نے اس کے حصول کا انتظام بھی اس دن کر دیا جس دن قرآن شریف کا نزول ہوا تھا یعنی 27رمضان المبارک۔ اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ اس علاقے کا ملک جدھر سے نور عرب کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی اور نام بھی 'پاکستان' تھا، اسے اس دن بننا چاہئے جس دن اْس نے اپنے پاک کلام کو اپنے آخری نبی پر نازل کیا تھا۔ واقعات کچھ اس طرح تھے:  
4 جون 1947ء  کو وائسرائے نے  ایک کانفرنس منعقدکی جس میں اس نے  اس بات کی تفصیل دی کہ 3جون  کی پلان  کیسے معرض وجود میں آیا۔اس نے بتایا کہ ہر مر حلہ اور ہر قدم پر  اس نے لیڈروں کے  ہاتھ سے ہاتھ ملا کر کام کیا  اور یہ پلان ان کے لئے کسی قسم کا  دھچکا یا حیران کر دینے والی بات نہ تھی۔ ایک اخباری نمائندے نے  پوچھا کہ "ہز ایکسی لینسی " کب تک "ہز ایکسی لنسی" رہیں گے  اور اس کے بعد 'گورنر جنرل' بن جا ئیں گے۔ دوسرے لفظوں میں 'ٹرانسفر آف پاور' یعنی 'انتقال اقتدار'  کب ہو گا؟  'یہ تو نہایت  ہی پیچیدہ سا سوال ہے'، ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا'۔ پھراس کے بعد کہا "میرے خیال  کے مطابق 'انتقال اقتدار15'اگست  تک ہو سکتا ہے"۔  :
تو پھر پاکستان چودہ اگست یعنی 27 رمضان المبارک کو کیسے بن گیا؟ایچ وی ہڈسن نے،جو کسی وقت وائسرائے لارڈ لنلتھگو کا ' آئینی مشیر' رہا تھا  اپنی کتاب  The Great Divide’میں  14اگست بمطابق 27 رمضان المبارک  کو پاکستان بننے کی تفصیل کچھ اس طرح دی ہے: "  ایسی مشکل جس کی امید ہی نہ تھی  وہ 15اگست  کی تاریخ   کا  ذکر کرنے سے آ پڑی۔ وائسرائے کو  متنبہ نہ کیا گیا تھا کہ  ٹرانسفر آف پاور کی تاریخ مقرر کرنے سے پہلے اسے   ہندو 'جوتشیوں' سے مشورہ کر نا چاہئے  تھا۔ مشکل سے ہی  ایک ہفتہ پہلے اسے پتہ چلا کہ انہوں نے یعنی جوتشیوں نے 15اگست کو ایک منحْوس  دن قرادیا ہے۔ لیکن 14اگست  خوش قسمت  ہوگا۔اس مشکل  کو  اس طرح حل کیا گیا کہ آئین ساز اسمبلی کو 14اگست  کی شام کے آخری وقت بلا یا گیا  اور ایک آزاد انڈیا/انڈی پنڈنٹ انڈیا  کی اسمبلی کی صورت میں   جیسے ہی آدھی رات  کی گھنٹی بجی تو برطانیہ  سے قبضہ لے لیا گیا جو کہ'ظاہرا طور پر ابھی بھی ہندووں کیلئے ایک خوش قسمت لمحہ تھا'۔ اسی لیے ایک کتاب کا نام "فریڈم ایٹ مڈ نائٹ"۔ قائد اعظم سیماؤنٹ بیٹن پہلے ہی حلف لے چکا تھا"
پاکستان یقیناً مسلمانوں کے لیے اسلام کا قلعہ ہے اس کی بنیاد میں ہے کہ حاکمیت اللہ کی ہے یہ ملک لاالہ الااللہ کے نعرے کے ساتھ وجود میں آیا ہے۔ اس کے قیام کی کوئی وجہ تو ہو گی کہ اسے ہر طرف سے اسلام دشمن ہر وقت گھیرنے کی کوششوں میں رہتے ہیں یاد رکھیں پاکستان کے دشمن حقیقت میں اسلام کے دشمن ہیں وہ اسلام پر  گہرا مطالعہ رکھنے کی وجہ سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں یہاں سے دشمنان اسلام کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وہ اسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں لیکن انشاء اللہ پاکستان تاقیامت قائم و دائم رہے گا یہاں ختم نبوت پر یقین رکھنے والے کروڑوں افراد وقت آنے پر اسلام کی سربلندی کے کیے اپنی قیمتی جانوں کو قربان کے کیے تیار نظر آئیں گے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والے یقیناً اس ملک کے قیام کی حقیقت دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیں گے۔ پاکستان کے رہنے والے یہ ثابت کریں گے کہ پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ کیوں کہا جاتا ہے۔ حالات مشکل ضرور ہیں لیکن آسانی بھی آئے گی۔ دشمنان اسلام کو سازشوں کا مزہ چکھایا جائے گا۔ کوئی وقت ضرور آئے گا جب کوئی ایک شخص ہی جذبہ ایمانی سے حالات کو بدل دے گا۔ اللہ ہمیں سیدھے راستے پر قائم رکھے۔ اللہ ہمیں حق کے ساتھ زندہ رکھے، اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو باہمت، غیر مند اور بہادری کے ساتھ اسلام اور پاکستان کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی توفیق عطاء  فرمائے۔
شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ لمبے عرصے تک ہمارا وزیر خارجہ نہیں رہا اور وزیر خارجہ نا ہونے کے باعث ہم سفارتی سطح پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں ناکام رہے۔ بھارت پاکستان کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے وہ جماعتیں جن کے دور میں وزیر خارجہ نہیں تھا اس کا جواب انہیں دینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر اور بھارت جیسے ازلی دشمن کی موجودگی میں وزیر خارجہ کیوں نہیں تھا اس دوران سفارتی سطح پر ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہے اس کا ازالہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اس کے ذمہ داروں سے جواب لینا تو ممکن ہے۔ جمہوریت کے علمبرداروں سے سوچنا چاہئے کہ آج انہیں کشمیر کا درد کھا رہا ہے تو شاہ محمود قریشی کی اس بات کا دلیل کے ساتھ جواب دیں۔ قوم کو بتائیں کہ اس دوران کیا نقصان ہوا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ ہم چین کے اسٹریٹیجک تعلقات کو معاشی تعلقات میں بدل رہے ہیں، چین ہمارا آزمایا ہوا دوست ہے، سی پیک ٹو میں معاشی اہداف رکھے گئے ہیں، آج چین بھی بھارت کے توسیع پسندانہ سوچ کے خلاف کھڑا ہے۔ چین پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارتی محاذ پر پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال کردار کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کو امن و امان کی بہتر ہوتی صورتحال کسی صورت قبول نہیں۔ ہمیں داخلی معاملات کو بھی بہتر بنانا ہو گ بالخصوص بلوچستان کے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حکومت کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ ان دو برسوں میں عوامی مسائل حل نہیں ہو سکے۔ بالخصوص اشیاء خوردونوش کے معاملے میں حکومت کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اس شعبے میں بہتری کے لیے وزراء اور متعلقہ اداروں نے وزیراعظم عمران خان کی تمام کوششوں کو ہورے جذبے کے ساتھ ناکام بنایا ہے۔ آج ہونے والی مہنگائی وزراء کی عدم توجہ، عدم دلچسپی کا حصہ زیادہ ہے۔ دو سیاسی جماعتوں کے مسلسل کمزور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کو حکومت مشکل حالات میں ملی ہے لیکن اب دو سال کا عرصہ گذر چکا ہے اب صرف جانے والوں کو برا بھلا کہنے سے کام نہیں چل سکتا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو اب عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم اور خوراک کی وزارتوں کی کارکردگی کا خود جائزہ لینا ہو گا جں تک ان شعبوں میں تجربہ کار اور بے لوث افراد نہیں لگائے جائیں گے بہتری ممکن نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...