یوم آزادی پر وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو چند خوشخبریاں سنائیں، ان میں سے عوام کے لئے اہم بات یہ تھی کہ یہ جو ہر ماہ بجلی کے بلوں کی بجلی گرتی ہے، اس میں کمی آنے کا رستہ نکل آئے گا۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک میڈیا بریفنگ میں اس خوشخبری کی تفصیل سناتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارا پانے کا جو حل نکالا، وہ ملک اور عوام کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔ ایک تو بجلی کے منصوبوں کے جو معاہدے کیے گئے وہ انصاف پر مبنی نہیں تھے، بجلی کمپنیوں ہی کے سارے ناز نخرے اٹھائے گئے، بجلی پیدا کرنے کیلئے در آمدی تیل پر انحصار کیا گیا ، بجلی کی من مانی لاگت کا تخمینہ قبول کیا گیا اور یہ ظالمانہ اور جابرانہ شرط بھی قبول کی گئی کہ حکومت ان سے بجلی خریدے یا نہ خریدے مگر ان بجلی گھروں کی پیداواری استطاعت کے مطابق پوری ادائیگی کی جائے گی اور وہ بھی ڈالروں کی شکل میں۔ ڈالر ملک میں پہلے ہی نایاب تھے اور جو اوور سیز پاکستانیوں کی مہر بانی سے آتے تھے وہ تھرمل بجلی گھروں کی بھینٹ چڑھ جاتے۔ یوں سارا بوجھ بجلی کے غریب صارفین کو برداشت کرنا پڑتا اور جو زرعی اور کاروباری اور صنعتی شعبہ ہے، ان کی پیدا واری لاگت میں اس قدر اضافہ ہو جاتا کہ ہماری مصنوعات بیرونی منڈیوں میں دنیا کا مقابلہ نہ کر پاتیں۔
نئی حکومت پر دو سال سے گونا گوں مسائل سر درد بنے ہوئے تھے مگر اب ان میں سے ایک سنگین مسئلہ جو مہنگی بجلی کی شکل میں بھگتنا پڑتا تھا ، اس سے چھٹکارا پانے کی امید پیدا ہوگئی ہے۔ اس کیلئے حکومتی ٹیم نے طویل عرصے تک بجلی گھروں کے مالکان سے مذاکرات کیے اور ان کے سامنے حقائق کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ وہ فی یونٹ بجلی کی لاگت میں حکومت اور قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں، اس لئے لاگت وہ وصول کی جائے جو حقیقی ہے صرف اسی ایک شرط کے ماننے سے بجلی کے بلوں کا آدھا بوجھ کم ہوجائے گا ۔ حکومت نے بجلی گھروں سے یہ بھی منوالیا کہ ان کو اسی بجلی کے پیسے دیئے جائیں گے جو ان سے خریدی جائے گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں بجلی گھروں کی پیدا واری استطا عت کے مطابق ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ آسان زبان میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرانے گردشی قرضوں کو چھوڑ کر آئندہ کے گردشی قرضوں سے نجات مل گئی اور قومی خزانے کا وہ ہمالیائی بوجھ کم ہوگیا جو ہر وقت گردشی قرضوں کی ادائیگی کی مدمیں لاحق رہتا تھا۔ایک آسانی یہ سامنے آئی ہے کہ صرف بجلی گھروں کے بیرونی سرمایہ کاروں کو ہی ڈالر میں ادائیگی کی جائے گی جبکہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو ملکی کرنسی میں بل ادا کیا جائے گا، اس سے ہمارے زر مبادلہ کا بخار اترنے میں مدد ملے گی ۔
ایک میڈیا بریفنگ وفاقی وزیر عمر ایوب نے بھی کی ہے ۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اب حکومت کی نئی پالیسی یہ ہے کہ سستے داموں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگیں گے، اس سے عام صارف کا بوجھ بھی ہلکا ہوگا اور زرعی اور صنعتی شعبے کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملے گا کہ اب ان کی مصنوعات عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گی۔
ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم عمران خان نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا افتتاح کردیا ہے، بد قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں ابھی تک دو ہی بڑے ڈیم بن سکے ہیں ایک تربیلا اور دوسرا منگلا اس کے بعد جیسے سابقہ حکومتوں کو سانپ سونگھ گیا ہو کہ انہوں نے پاکستان کے دریائوں کے وافر پانی کو لائق توجہ ہی نہیں سمجھا اور گھبراہٹ میں ڈنگ ٹپائو تھرمل منصوبے دھڑا دھڑ لگانے شروع کردیئے جنہوں نے صرف عوام کا ہی خون نہیں چوسا بلکہ قومی خزانے کو بھی خالی کرکے رکھ دیا ، یہ بد قسمتی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے جن میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں شامل رہیں، قوم اور ملک کے مفاد کو ترجیح نہیں دی صرف یہ دیکھا کہ جس قیمت پر بھی لوڈشیڈنگ کم ہوسکے اسے کم کرواور عوامی شور و غل کا منہ بند کریں ، ان سیاسی پارٹیوں کی بدترین نا اہلی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں محض لوٹ مار سے غرض تھی اور بیرون ملک اثاثے بنانے کا جنون طاری تھا ۔وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کرپشن اور استحصال کی ہر شکل کے خاتمے کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے اور جیسے ہی اسے پہلے دو سالوں میں بنیادی مسائل سے نمٹنے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے تو اب ملکی ، قومی اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کیلئے دھڑا دھڑ اقدامات شروع کردیئے گئے ہیں۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے توانائی شہزاد قاسم نے کہا کہ ہماری پیداواری استعداد تقریباً 32 ہزار میگاواٹ سے زائد ہے جبکہ سردیوں میں بجلی کا استعمال انتہائی کم ہونے کے باوجود ہمیں آئی پی پیز کو مکمل ادائیگی کرنا پڑتی تھی۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ماضی میں قابل تجدید توانائی سے سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر حکومت 2030ء تک قابل تجدید ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کے لئے انرجی مکس کو 20 تا 25 فیصد تک بڑھائے گی تاکہ سستی بجلی کا حصول ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس پر کام ہی نہیں کیا گیا اور قابل تجدید ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی پیداوار 1500 تا 2000 میگاواٹ تھی لیکن اب 10 سے 12 مزید منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور سستی بجلی کی پیداوار کے فروغ سے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ اسے کہتے ہیں کہ بھلے دن آئیں گے۔