مملکت خدا ددو قو می نظر یہ کی بنیاد پر د نیا کے نقشے پر ابھر ا ایک ایسا اسلامی ملک جہا ں دین محمد ی ؐکا بو ل با لا ہو ،اسلامی طر ز حیا ت اور اسلامی نظا م حکو مت کے اصو لو ں کے مطا بق ہما ری نئی نسلیں پر وا ن چڑ ھ سکیں لیکن بد قسمتی سے ہم نہ اسلامی تہذ یب و تمد ن کو اپنا سکے اور نہ ہی اسلامی نظا م حکومت پر عمل پیرا ہو کر دین اور دنیا کی خد مت کر سکے ۔ ہم اس نظام حکومت کے پیر و کار ہے جس کی خا میو ں کی وجہ سے ہما ری 73سا لہ تر قی سر نگو ں رہی یہ جمہو ری نظام حکو مت اسلا می تعلیما ت اور اصو لو ں سے قطعی طو ر پر مطا بقت نہیں رکھتا بس اعد اد وشما ر گور کھ دھند ہ ہے اسلا م میں چند صا حب ر ائے علماء مشا ئح کی شوریٰ ہو تی ہیں جس کا سر برا ہ خلیفہ کہلا تا ہے اور یہ ہی ریا ست کا تما م نظا م چلا تا ہے آ پؐکے بعد یہ ہی نظا م خلا فت قائم و دائم رہا جس میں اسلا م نے دن دگنی را ت چگنی تر قی کر کے اسلام پو ری دنیا کے کو نے کو نے میں پھیلا ۔ مغر بی جہو ر ی نظا م کے لیے نہ اس وطن عزیز کی مٹی ، نہ آ ب و ہو ا اور نہ مز اج مو زو ں اور مناسب ہے اس لیے یہ پو دا پھلنے اور پھو لنے کا نام نہیں لیتا لیکن ہم اسی نظام کو شیدائی ہیں جو نہی اس نظا م کے تحت انتخا با ت ہوتے ہیں اور نئی ویلی پا رلیمان وجو د میں آ تی ہے اس پارلیمان کے ارکان نہا یت مو زو ں اعلی اور ارفعہ الفا ظ میں حلف اٹھا تے ہی اس حلف کو بھو ل کر معز ز اراکین پار لیمان کہلا تے ہیں جب ان پر ذرا سی آ نچ آئے جا ئے تو معز ز اراکین پارلیما ن کا استحقاق مجر وع ہو تا ہے حا لا نکہ انتخا ب کے دو ران قا نو ن و قاعدے اور اخلا قیا ت کے دھجیا ں اڑا کر دو لت پا نی کی طر ح بہا کر اور غریب عو ام استحقا ق مجر وع کر کے یہ معز ز اراکین کہلاتے ہیں کبھی کسی نے بھولے سے بھی ووٹر کو معز ز ووٹر نہیں کہا اور نہ ہی اس کے استحقا ق مجر وع ہو نے کا خیا ل آیا ہے ان کا ایک ہی سلو گن ہے کہ ووٹ کو عز ت دو، ووٹر کو ذلیل اوررسوا کرو۔ یہ دانا اس با ت سے بے خبر ہے کہ ان کا مقد ر غر یب کے قدمو ںتلے ہے حلف وفا داری کے بعد قا ئد ایوان اور اس کی ٹیم کا انتخا ب غیر اسلامی ، غیر اخلا قی اور غیر جمہو ری طریقے سے ہو تا ہے خو ب بلیک میلنگ اور با ر گینگ ہو تی ہے ، عہدو ں کی لا لچ دی جا تی ہے بعض او قا ت چند اراکین رکھنے والی جما عت اور آ زاد ارکا ن پوری پا رلیما ن پر بھا ری ہو جا تے ہیں حکومت سازی کی فو را ً ہی بعد اسمبلی کے اند ر اور با ہر د ھا ندلی دھا ندلی ، حکو مت گرانے اور نئے انتخا با ت کی صد ائو ں کی گو نج اٹھتی ہیں ان کا مطمع نظر یہ ہو تا ہے اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں نہ کھیلے گئے نہ کھیلنے دیں گے یہ مر د مید ان سپوٹ مین کے سپر ٹ سے عا ری ہو تے ہیں صبر و تحمل کے الفا ظ سے ان کی لغت خالی ہو تی ہے انتخا ب کے دور ان باہم دست گر یبا ں رہنے والے حکومت کے خلا ف یک جا ن دو قا لب ہو جا تے ہیں لیکن جو نہی کوئی مفا د نظر آئے تو ایسے اجنبی ہو تے ہیں کہ جیسے ایک دو سر ے کو جا نتے ہی نہیں پھر نہ ختم ہو نی والی جنگ شر وع ہو تی جا تی ہیں مو جو د اسمبلی حسب رو ایت اپنی پر انی رو ش اور ڈگر پر چل رہی ہے حکومت اور اپو زیشن دو نو ں بنچو ں سے دو نہا یت نو جو ان خو ب رو وجہیہ چہر ے گل افشانی کا آ غا ز کر تے ہیں پھر ان کے بڑ ے کہنہ مشق ہجو گو شا عر دو غز لے سے غز لے کہہ ڈا لتے ہیں وہ مشا عر ہ گر م ہو تا ہے اللہ خیر کر ے ۔ مشا عر کی ابتدا ء پگڑیا ں اچھا لنے سے شر وع ہو تی ہے اور کپڑ ئے اتا رنے اور نگیاں گالیو ں پر ختم ہوتا ہے یہا ں تک کہ احترا م خو اتین کا خیا ل نہیں رکھا جاتا حا لا نکہ اسلام حقو ق خو اتیں کا سب سے بڑ ا داعی ہے ہر مذ ہب اور ہر معا شر ے احتر ام خو اتین کا درس دیتا ہے ہندومت میں تو عورت کو دیوی کا مقام حا صل ہے ۔
وجو د زن سے ہے تصو یر کائنا ت میں رنگ
ان عقل مند وں کی نظرمیں ما ں ، بہن ، بیٹی ، بہو ، نانی ، دادی اور بیو ی کا ر وپ نظر وں سے اوجھل ہے یہ بھی بھو ل جا تے ہیں کہ ان کا اپنا جنم کس کے بطن سے ہو ا ہے ۔ ان معز ز نما ئند گان کا اصل کا م ملک و ملت کے لیے اسلامی اصو لوںاور تعلیما ت کی ر وشنی میں نظام حیا ت اور طر ز حکومت کے لیے قا نو ن سا زی کر نا ہے لیکن انہو ں نے کبھی بھی قا نو ن کی بو سید ہ فائلو ں کو چھو ا ہے اور نہ کبھی چھو نے کی جسا رت کی ہے ۔ ہما رے تما م ادا رو ں میںلا رڈ میکا لے کی قا نو ن کی صدا ئے با ز گشت سنا ئی دی رہی ہیں جو کہ انہو ں نے اپنے غلا مو ں کے لیے بنا یا تھا وہی تعزیرات بر طا نیہ اور وہی سر وزسٹر یکچر اور الغر ض تمام ادا ر وں میں وہی قا نو ن غلامی ہیں خیر عو ام قا نو ن سا زی سی لنڈو رے ہی بھلے کم از کم یہ معز ز اراکین اپنے لیے ایک ایسا ضا بطہ اخلا ق وضع کر یں جس سے ان کے استحقا ق مجر و ع نہ ہو ں اور نہ ہی غیر پا رلیما نی صدا ئو ں کی گو نج ، پار لیما ن میں سنائی دئے اور نہ ہی مہذ ب عو ام اور معز ز و وٹر استحقا ق گھائل ہو ان کو جب صدمہ پہنچا تا ہے تو ان کی آ ئیں پا رلیما ن کا سینہ چیر کر چر خ نیلی فام کو دھند لا کر رکھ دیتیں ہیں گرانی کا طو فا ن تھمنے کا نام تک نہیں لیتا ۔
کیا کیا کہیں صدمے ہیں کیا کیا
خا ن صا حب نے شو گر ما فیا پر ایسا ہا تھ ڈا لا جس پر شو گر سینچر ی مکمل کر کے مز ید اڑ ان بھر نے والی ہیں جو کہ کسی طو فا ن کے پیش خیمہ ہو سکتا ہے ۔معز ز ووٹر اور عو ام اس با ت سے بے خبر اور نابلد نہیں کہ دہشت گر دی ، قتل و غا رت گر ی ، لو ٹ کھسو ٹ ، ذخیر ہ اند وزی ، بھتہ خو ری اور منی لا نڈرنگ کے تا نے بانے کس سے ملتے ہیں بلکہ یہ تما م راستے ان کے محلا ت سے نکل کر واپس انہی محلا ت کو لو ٹتے ہیں اور یہ ہی تمام بر ائیاں کے پر وردہ ہیں ۔ قو م کا غم خو ار تو لیا قت علی خا ن تھا جس نے نو ابی چھو ڑ کر اپنے سینے میں گو لی کھا کر خو ن کا آ خر ی قطر ہ بھی وطن عز یز کے لیے بہا کر ہمیشہ کے لیے امر ہو گے جبکہ ہمارے غم میں ہمار ے بیمار و ں کے رخسا رو ں سے بھی لہو ٹپکتا ہے۔ عقل سلیم رکھنے والو ںسکند ر جب دنیا سے گیا تو دو نو ں ہا تھ خا لی تھے ۔ کیا آپ نے نہیں سنا کفن کے جیب نہیں ہو تے ۔ یہ حکو متی رو یے دو قو می نظر یہ و اقبا ل و قائد اعظم کے ویژ ن کے عکا س نہیں ۔
؎ نہ تم صد مے ہمیں دیتے نہ ہم فر یا د یونہی کر تے نہ کھلتے را ز سر بستہ نہ یو ں رسو ائیں ہوتیں