غمِ حسینؓ زیادہ ہے، زندگی کم ہے

جہان کے غم رفع ہو جائیں اور غمِ حسینؓ میسر آ جائے۔ سائل کا نصیب جاگ اٹھے اور وہ ہر دو جہاں میں سرخرو ہو جائے۔ اس لئے کہ غمِ حسینؓ نجات کا ضامن ہے۔ یہ غم ہر دم تازہ رہے اور پل پل پلتا رہے۔ آنسوئوں کی اک جھڑی ہو کہ جسم و جاں کو جل تھل کردے۔ کیفیتِ غم کا تعلق عطا سے ہے۔ یہ غمِ عطائی ہے۔ عطائے کبریائی ہے۔ مجھے جنابِ واصف علی واصفؒ کے لازوال جملے یاد آ رہے ہیں: ’’ہماری کربلا چھوٹی چھوٹی کربلائیں ہیں کہ جہاں چھوٹا سا واقعہ ہو جائے وہاں تسلیم و رضا کر جا۔ اگر پیٹ میں درد ہے تو خاموش ہو جا، اللہ کا گلہ نہ کر۔ یہاں آپ کی کربلا کامیاب ہو گئی۔ یعنی جہاں چھوٹی سی ابتلا میں آ گیا وہاں خاموش ہو جا۔ اگر تکلیف میں آ گیا تو خاموش ہو جا کیونکہ تکلیف اسی کی طرف سے آ رہی ہے اور اس خاموشی اور تکلیف میںاللہ کی عبادت کر۔ یہ بھی ایک کربلائی مقام ہے۔ اس لئے جب آپ اپنی کربلا سے گزر رہے ہوں تو پھر شہنشاہِ کربلاؓ کا واقعہ آپ کی نگاہوں میں ہو اور اگر وہاں خاموش ہو جائو تو آپ کو فیض مل جائے گا‘‘۔ سبحان اللہ، سبحان اللہ۔ گویا یہ مقامِ تسلیم و رضا ہے، یعنی تسلیم ہی تسلیم اور رضا ہی رضا۔ راضیۃ المرضیہ اور راضی بہ رضا ہو جانا بڑے مقام کی بات ہے۔ مقام والے یہ مقام پا جاتے ہیں۔ جب مخلوق، خالق کی رضا پہ راضی ہو جائے تو پھر خالق اپنی رضا کو نہیں بلکہ مخلوق کی رضا کو دیکھتا ہے۔ مخلوق کی چاہت، خالق کی چاہت بن جاتی ہے۔ مجید امجد نے کہا تھا:
؎سلام ان پہ تہہِ تیغ بھی جنھوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے
آنکھیں غم میں نم رہیں تو سفر سہل ہو جاتا ہے۔ آنسوئوں کی بدولت اس سفر کی تمام تر لذتیں میسر آتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ آنسو کڑی مسافت طے کرنے کے بعد آنکھ سے آ ٹپکتے ہیں۔ محبت، مودت اور عشق کے خمیر میں گندھے آنسوانسان کا نصیبا بدل دیتے ہیں۔ ان آنسوئوں کا تعلق درِ نجف سے ہے، خاکِ کربلا سے ہے۔ صاحبانِ نسبت کے لئے خاکِ کربلا، خاکِ شفا ہے۔ یہ خاک آنکھوں کی ٹھنڈک، ہر زخم کا مرہم ، ہر درد کا درمان ہے۔ خاک کے ذرے ذرے سے برآمد ہوتا نور کائنات کو منور کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ اسی کے سبب ہے کہ غمِ حسینؓ نمو پاتا رہے۔ غالب نے کہا تھا:
؎غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگین
ذکرِ اہلبیتِ اطہار دل میں گھر کر جائے تو بات بن جاتی ہے۔ زندگانی تو گزر جانی ہے، احسن ہے کہ کسی کے نام پہ گزرے۔ زندگی کسی کے نام کر دی جائے۔ سانسوں کا سین، سلام کے سین سے پیوست ہو جائے۔ ہر سانس سلام پڑھے، ہر سانس سلام بھیجے۔ دھڑکن انھی کے نام پہ دھڑکے، جن کے دم سے کائنات میں دم ہے، ہر آنکھ نم ہے۔ آج ہر سو حسینؓ حسینؓ اور علی علی کی صدا ہے جوکہ سدا ہے۔ یہ غم، یہ ذکر امانت ہے جس کا بوجھ اٹھانے کے لئے فاتح خیبرؓ کی جانب متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ مجھے حضرتِ داغؔ کا شعر یاد آ رہا ہے:
؎غمِ حسینؓ میں اٹھے گا سُرخ رُو، اے داغؔ
یہ بوجھ تُو نے اٹھایا علی علی کر کے
غمِ حسینؓ کے حامل لوگوں کے لئے یہ زندگی، یہ ساعتیں کم پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے کہ ان کی ہر خواہش، ہر ایک آرزو غمِ حسینؓ پر فدا جاتی ہے۔ وہ آرزو مند ہوتے ہیں کہ اگر باردگر زندگی ملے تو اسی کیفیتِ غم میں گزار دی جائے۔ یہ غم تو دائمی ہے۔ یہ حدوو و قیود کا حامل نہیں۔ اس کے باب میں حصار ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ یہ مخصوص دنوں، مہینوں سے نکل کر حیات کا احاطہ کر لیتا ہے، پھرغم کسی خاص رسم سے مبرا و ماورا ہو جاتا ہے۔ کیفیتِ غم دائماََ مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ لمحہ لمحہ کرب و بلا کے کرب اور قرب میں گزرتا ہے۔ قرب کے سبب کرب اور کرب کے سبب قرب ملتا ہے۔ سال کے بارہ مہینے، مہینے کے تیس دن، دن کے بارہ گھنٹے، گھنٹے کے ساٹھ منٹ اور منٹ کا ہر ایک ثانیہ کربلا والوں نذر کر دیا جاتا ہے۔ باوجودیکہ زندگی کم پڑ جاتی ہے اور غمِ حسینؓ کے باب میں حق ادا ہو نہیں پاتا۔ محسن نقوی نے کہا تھا:
؎میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہو گا
غمِ حسینؓ زیادہ ہے، زندگی کم ہے 
زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ چشم تر اور حلق خشک رہے جبکہ سینہ کربلا کا منظر پیش کرے اور زباں پہ وردِ حسینؓ جاری و ساری رہے۔ یہ راہِ محبت و مودّت ہے۔ یہاں چاہت، تڑپ، اضطراب اور آنسوئوں کا راج ہے۔ یہاں زہد و ورع کے راہی، عاشقین کی گردِ سفر کو بھی چُھونہیں سکتے۔ اس لئے کہ عشق کی اک جست تمام قصہ طے کر دیتی ہے۔ آخر میں راقم الحروف، خاکِ درِ اہلبیت کے، امام عالی مقامؓ کی بارگاہ میں پیش کئے گئے سلام کے چند اشعار:
مجھ پہ آخر کرم ہو گیا
ورد میں نے کیا یاحسینؓ
چشم تر، حلق بھی خشک ہے
سینہ ہے کربلا یا حسینؓ
صرف پہچاں حسینی مری
دائمی سلسلہ یا حسینؓ
 

ای پیپر دی نیشن