حدیث عشق دوباب است کربلا ودمشق یکے حسین رقم کردودیگرے زینب

 وجیہ السیماء عرفانی چشتی
اہل ِ حق کی چشم ِ بینا ،منزل ِ عرفان کے رہنمائے خیر ہے
حسین ؓ قیامت تک ظلم کی جڑ کاٹ دی
امام حسینؓصدق ِ خلیل کا آغازبھی ہیںاو بے مثل سفر ِ حق کی منتہا صبربھی ہیں
وہ اہل ِ حق کی چشم ِ بینا ہیں ، وہ منزل ِ عرفان کے رہنمائے خیر ہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
سیدنا حسین ابن علیؓ ، امام بھی ہیں ، شہید بھی ،وہ  سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کے نور ِ نظر ، سید نا علی المرتضیٰ ؓ کے پارہ جگر بھی ہیں ، وہ سید البرار احمد مختار ؐکے نواسے اور امام حسنؓ مجتبیٰ کے بھائی ہیں ، وہ خانوادہ اہل ِ بیت کے روشن چراغ ہیں ، وہ اہل ِ حق کی چشم ِ بینا ہیں ، وہ منزل ِ عرفان کے رہنمائے خیر ہیں ، وہ محفلِ علم و آگہی کے سردفترِ کمال ہیں ۔
امام حسینؓ پیکر شرف ، جمال عزت، توقیرِآبرو،  مینارتمکنت، حاصل تسلیم ،روشن مفہوم صبر، رضا معنی تاباں ِرضا، حرف یکتائے استقامت ،   مرجع ِ تعبیرِ استقلال ،کمال حق آگاہی ،  آفتابِ فضائے اخلاص،نورقلوب، صدائے حق ضمیر، ربط ِ تکرار ایمان ، وابستۂ کیف ِ سعادت ،منسوبِ جمالِ جاں،فرماں روائے جہان ِ تقدیس ہیں ۔
امام حسین ؓکا عزم و عمل ، ایثار و یقین ،درس لازوال کردار،آزادی و حریت ، اسلام و ایمان ، جذبہ و ایثار کی منزل کا نشان ِ نور ہے ۔ امام حسینؓ اس مقام پر ہیں، جہاں عشق اور حق کاوہی تعلق ہوتا ہے جو لفظ و معنی اور مفہوم و تعبیر میں ہوتا ہے ۔امام حسینؓصدق ِ خلیل کا آغازبھی ہیںاور اس بے مثیل سفر ِ حق کی منتہا صبربھی ہیں ۔جب ابراہیمؑ اپنے پروردگارکے تمام امتحانوں میں کا میاب ہو گئے،تو اللہ نے فرمایا،ابراہیم ؑ میں تمہیں ساری کائنات کا امام بنانے والا ہوں ۔پھر یہ امامت حضرت اسماعیل سے اولاد اسماعیل میںچلتی چلتی حضرت علیؓ،حضرت امام حسنؓ اور پھر امام حسینؓ تک پہنچی اورختم امامت امام مہدیؑ پر ہوگا۔ 
حضرت ابراہیم ؑنے دعا کی تھی ۔الٰہی میر ی بات کی سچائی کی نمود ، ان میں رکھ دے ، جو آخر میں آنے والے ہیں ۔اور حق تعالیٰ نے اس پورے کردار کے لئے ارشاد فرمایا ۔
ہم نے ان کی جگہ ایک عظیم قربانی مہیا کی اور ہم نے کردار ِ خلیل کو اُن کے لئے باقی رکھ چھوڑا ہے ، جو آخر میں آنے والے ہیں ۔تعمیر کعبہ جس مضمون کا عنوان تھا معرکہ کربلا اس کی تعبیر رہی ، آتش وگلزار کے درمیان جواَن کہی بات تھی ،عمل ِ شبیری اس کا اظہار ہوا ، اور زبان ِ صدق جس کا مبتدا تھی ، حسینؓ کی شمشیر تابدار اس کی خبر ثابت ہوئی ، یہ تھا عمل ِ امامت کا وہ کردار جو حضرت ابراہیم ؑنے امانت چھوڑا ، اور صبر حسین ؓ اس کی ادا بن کر نمودار ہوا ۔
حضرت امام حسین ؓکے پورے کردار ، یعنی رزم ِ خیرو شر ، مقابلہ حریت و محکومی اور معرکہ کربلا کے پورے معاملے کو سمجھنے کے لئے ایک بنیادی نکتہ یہ پیش ِ نظر رکھنا چاہیے کہ دین اسلام کا اپنا ایک منفرد اسلوب ہے ، وہ اس کا یہ نظریہ ہے کہ کوئی بات یا اسلام ہے یا اسلام نہیں ، دین ِ اسلام میں نہ کوئی بات شک میں ہے ، نہ الجھن میں ، نہ اس کے اصولوں سے انحراف میں اسلام ہوتا ہے ، نہ اس کے مزاج میں کسی دوسری بات کے دخیل ہونے سے اسلام باقی رہتا ہے ، اس معیار اور اسلام کی اساسی تعلیم کو پیش رکھ کر حسینؓ و یزید کے کردار متعین ہوتے ہیں اور اسلام اور نا اسلام ، حق اور باطل ، انہی کی عملی تعبیرحسینؓور یزید ہیں ۔ حضرت امام کا یہی وہ عمل ِ لازوال ہے کہ انسانیت کے لئے رہنما اور اسلام کے لئے حیات تازہ ہو کر رہا ۔راکب روش ِ رسول ؐ ، ز ہرؓا کا لال ، حیدر ِ کرر کا سپوت ، حضرت ابراہیم ؑکے لہو اور حضرت اسماعیل ؑ کے خون کا محور ، حسینؓ اسلام کا نقیب اور داعی ہے ۔ قافلہ دین ِ اسلام کا وہ امام ، اسی اسلام کو یزیدی یورشوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اٹھتا ہے تو ایسے عزم و استقامت کے ساتھ کہ روح القدس ہمیشہ کے لئے اس کا اسلامی ہے ۔اس عزم و عزیمت کے ساتھ اس شہزادہ عالی مقام کے قدم بڑھتے ہیں اس میدان ِ قتال کی جانب جس کا نام زمین کربلا ہے حضرت حسین ؓ کایہ عزم و عمل عین ِ حق ہے۔ 
حکومت کی طلب ہو تو اس کے لئے ہزاروں تدبیریں کارگر ہوتی ہیں ،اقتدار چاہیے تو عقل و دانش اس کے لئے سوراہیں تیار کرتی ہے ، جاہ و حشمت کی ہوس ہو تو سو دوزیاں کے ہزار گوشے ہیں ، سلطنت کی خواہش ہو تو نظم و لشکر تیار ہوتے ہیں ، دنیا کی طلب ہو تو اس کے عشوہ واوا کی فراوانیاں ہوتی ہیں ، لیکن حسینؓ اسلام کے لئے ہے ، حسینؓ دین کے لئے ہے ، حسینؓکے لئے ہے ۔
امام ِ عالی مقام صرف ستر یا بہتر قدسی نفوس کو ساتھ لے کر میدان ِ کربلا میں دین و دیں پناہ بن کر یزید کی ان تمام قوتوں کے مقابل برسر ِ پیکار آتے ہیں ، جو ’’ رشتہ قرآن ‘‘ کو توڑ کر ’’ عقل ہوس پرور ‘‘ کی پرداخت  ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
حسین ؓ وہ ذات ِ عالی ،کہ روئے زیبا پر امامت کا جمال ہے ،جبین ِ نور پر سیمائے سجود ہے ، دوش ِ استقامت پر امت ِ خیرالوریٰ کی ذمے داری ہے ، دست ِ کرامت میں شمشیر حق ہے ،نگاہ عصمت میں ایمان ِ کائنات کی حفاظت ہے ، معرکہ کربلا میں نکلتے ہیں ، خانوادہ رسالت کا خون یزیدی تلواروں سے حق پرستی کی شہادت لیتا ہے ، معصوم شہزادوں کے گلوئے انوار ، اور باحق ساتھیوں اور عزیزوں کے پاک جسموں سے خون ِ رگِ رسول  ؐ بہتا ہے ، اس طرح حسین ؑ شمشیر ِ حق کو بے نیام کرتے ہیں اور اور مکان و لامکاں ، زمین و زماں پھر وہ عالم بھی دیکھتے ہیں کہ وہ امام عالی ،کہ تیغ ِ حق جس کے دست ِ جہاں کُشا سے یزیدیوں کو فرعون و نمرود کی صفوں تک پہنچا کر اسلام کا پرچم بالا کرتی ہے ، لشکر ِ باطل کے ہاتھوں سرفرازی کے اس مقام ِ بلند کے لئے بڑھتے ہیں جس کے لئے آوازہ قدس یہ ہے ۔
یعنی وہ جو اللہ کے لئے اللہ کے کام کی خاطر ، دین ِ حق کے لئے ، اقدارِ اسلام کی سربلندی کی خاطر ،برائے حق ، قتل کر دیے جائیں انہیں مردہ مت کہو ، وہ واقعی زندہ ہیں ، تمہیں  اس کا شعور نہیں ہے ۔
شہادت ِحسینؓ برائے حق ہے ، یزیدیوں کے ہاتھوں قتل حسینؓ باطل کے ہاتھوں حق پرستی ، حق پسندی ، حق نگاہی اور حق آگاہی کے پیکر کے خلاف وہ معرکہ ہے کہ دین ِ اسلام کو جس کی تابانیوں پر ناز ہے ، یہ ہے حسین ؓکردار جب تک لفظ حُریت میں معنی باقی ہیںحسین ؓ عمل تاباں ہے ، جب تک انسانی اقدار کا وجودہے ، حسینؓ رجز وعزم ، نشان ِ راہ ہے ، دین ِحق زندہ ہے اور حسین ؓزندہ ہے ، اسلام و ایمان باقی ہے حسینؓ کی شہادت عظمیٰ باقی ہے ۔اے امام ِ حق ، آپ کو سلام ! اے شہیدِ حق ، آپ پر سلام ، اے ذات ِ پاک ، آپ کے لئے سلام ! ہر صاحب ِ ایمان کا سلام ! تابہ ابد سلام ہی سلام !۔
  
 

ای پیپر دی نیشن