لاہور (کامرس رپورٹر) سابق وفاقی وزیر خزانہ اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حافظ اے پاشا نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت کو سدھارنے کیلئے برآمدات کا فروغ، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے ، زرعی و خدمات کے شعبوں سے ان کی آمدن کے مطابق ٹیکس وصول کرنے اور نقصان دہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز سے جان چھڑانا ہوگی۔ وہ لاہور چیمبر میں اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں نعمان کبیر نے خطبہ استقبالیہ پیش کیاجبکہ سینئر نائب صدر میاں رحمن عزیز چن اور نائب صدر حارث عتیق نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ پچھلے سال خزانے پر تاریخ کا سب سے بڑا بوجھ 1800ارب روپے مجموعی طور پر پبلک سیکٹر انٹرپرائزز نے ڈالا۔ ایک کریش پروگرام کے تحت ان کی اصلاح ضروری ہے۔ پاور سیکٹر ایک بلیک ہول ہے جس نے معیشت کو تباہ کردیا جبکہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا سالانہ نقصان 173ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانا ضروری ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے کم ہے، ملک کی بائیس فیصد زمین ایک فیصد زمینداروں کے ہاتھ میں ہے، پچھلے سال ٹاپ 20فیصد زمینداروں کی آمدن 2800ارب روپے جب کہ وصول ہونے والا ٹیکس صرف دو ارب روپے تھاجبکہ ان پر حکومتی اخراجات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 80فیصد ٹیکس انڈسٹری سے جبکہ سروسز سیکٹر سے ٹیکس بہت کم ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ پاکستان وسائل سے مالامال ملک ہے جس کی معاشی حالت خراب ہونا تشویشناک ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئی ایم ایف سے پیسہ ملنے سے قبل زرمبادلہ کے ذخائر 7ارب ڈالر سے نیچے جاچکے ہونگے حالانکہ محفوظ سطح اٹھارہ سے انیس ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جولائی میں پبلک ڈیبٹ تقریبا پچاس کھرب روپے کے قریب ہے، بیرونی قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب 41فیصد ہوچکا ہے۔ پانچ سال قبل یہ قرضے 83ارب ڈالر تھے جو آج 130ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ مالی سال کے آغاز میں ہی ہمارے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونا تشویشناک ہے۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں نعمان کبیر نے کہا کہ گزشتہ چار مہینوں کے دوران روپے کی قدر میں بہت کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں ہماری صنعت، مینوفیکچرنگ اور زراعت کے شعبوں کی پیداواری لاگت میں زبردست اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہم خام مال، پرزہ جات، کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، بینکوں بھی درآمدی دستاویزات کے اجرا کے لیے انٹربینک ڈالر ریٹ سے دس تا پندرہ روپے زائد طلب کررہے تھے جں کی وجہ سے کنسائنمنٹس کی کلیئرنس میں تاخیر ہوئی اور کاروباری برادری کو ڈیمرج چارجز سمیت دیگرمسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میاں نعمان کبیر نے کہا کہ سال 2021-22میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 48ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں پچپن فیصد زائد ہے، دنیا کی کوئی بھی معیشت اتنے زیادہ تجارتی خسارے کی متحمل نہیںہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو صرف ٹیکسٹائل ہی نہیں بلکہ حلال فوڈ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل کے شعبوں کی برآمدی صلاحیت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا اور آسیان، افریقہ، وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرق وسطی پر توجہ دینی چاہیے۔ سینئر نائب صدر میاں رحمن عزیز چن نے کہا کہ ٹیکس بیس تسلی بخش نہیں، ملک میں تین ملین کے لگ بھگ ٹیکس دہندگان ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ نائب صدر حارث عتیق نے کہا کہ پاکستانی معیشت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، موثر پالیسی ایڈووکیسی اور مشترکہ کوششوں کے ہم معاشی بہتری لاسکتے ہیں جس سے عوام کے لیے بھی زبردست اقتصادی مواقع پیدا ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نجی شعبہ کو سازگار ماحول فراہم کرے تاکہ یہ معاشی ترقی میں اپنا بھرپور کردارادا کرسکے۔ لاہور چیمبر کے عہدیداروں نے کہا کہ پندرہ فیصد ڈسکا?نٹ ریٹ بہت زیادہ ہے جس سے انڈسٹری کی فنانس تک رسائی مہنگی ہوئی ہے، اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نقصان دہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، ان کی نجکاری کا عمل بھی تعطل پذیر ہے۔سابق صدور سہیل لاشاری، الماس حیدر اور ایگزیکٹو کمیٹی اراکین بھی اجلاس میں موجود تھے۔