سیاست پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے۔ سیاسی تعصب کے ہاتھوں مجبور لوگ ایک دوسرے کی برائیاں تو بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں اور اچھائیوں سے نظریں چراتے ہیں۔ بہتر راہ یہی ہے کہ ہم سیاسی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی اچھائیوں کو بھی سراہیں۔ یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔ اس سے معاشرے میں پھیلی انارکی میں کمی آتی ہے۔ جہاں اختلاف کا مسئلہ ہے وہاں اپنا حق ضرور استعمال کریں۔ جہاں سراہنے کی ضرورت ہے وہاں مخالف کو سراہیں پھر دیکھیں گے آپ وہ کمال جو ہمارے ہاں نظر نہیں آتا۔ مخالف بھی آپ کے حوالے سے جب بات کرے گا تو آپ کی برائی کے ساتھ آپ کی اچھائی بھی بیان کرے گا۔ پنجاب میں کئی ماہ تک ایک سیاسی افراتفری اور ابتری کی حالت نمایاں رہی۔ بالآخر خدا خدا کر کے اس منفی صورتحال سے نجات ملی۔ اس وقت پنجاب پر ق لیگ اور اس کے اتحادی پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے جہاندیدہ بزرگ سیاستدان پرویز الٰہی ہیں۔ انہیں یہ کرسی بہت سی قربانیوں کے بعد ملی جس میں سب سے بڑی قربانی ان کے خاندان کی تقسیم ہے ۔ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی ایک ہی سکے کے دو رخ یا ایک ہی تصویر کے دو پہلو کہلاتے تھے۔ اب ان کی راہیں جدا ہیں۔
نہ تم بے وفا تھے نہ ہم بے وفا ہیں
مگر کیا کریں اپنی راہیں جدا ہیں
سیاست بے رحم کھیل ہے اس میں یہ ہوتا رہتا ہے۔ دعا ہے یہ تقسیم دائمی نہ ہو۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے جو اچھے اور بڑے فیصلے کئے ہیں ان میں سے ایک پنجاب میں گریجویشن تک مفت تعلیم اور کا فیصلہ بھی ہے۔ یہ خبر سن کر ان لاکھوں افراد کی ڈھارس بندھی ہو گی جو نجی سکولوں اور کالجز کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
اب سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم سے وہ بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروا کے تعلیم کے نام پر تجارت کرنے والے پرائیویٹ سکولوںاور کالجوں کی لوٹ مار سے نجات حاصل کر لیں گے۔
پنجاب میں لاکھوں بچے ہر سال تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ا ور سرکاری سکولوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ اب اس تعداد میں بھی کمی آئے گی۔ یوں پڑھا لکھا پنجاب کے نعرے کو عملی شکل مل جائے گی۔
اگر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سرکاری سکولوںاور کالجوں میں دیگرضروری سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ و ہاں اساتذہ کی حاضری اور ایمانداری سے پڑھانے کی بھی کوئی راہ نکالیں تو کارِ ثواب ہو گا۔ اساتذہ کو پابند بنایا جائے کہ وہ سرکاری سکولوں کالجوں میں سیاست اور سازشیں کم جبکہ کام زیادہ کریں گے اور بچوں کو تختہ مشق سکھاتے ہوئے انہیں تختہ ستم نہیں بنائیں گے۔ اساتذہ کے تشدد کی وجہ سے ہزاروں طالب علم ہر سال تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں۔ ویسے بھی پنجاب میں ’’مار نہیں پیار‘‘ کا حکم نافذ ہے۔
پرویز الٰہی نے سکولوں اور کالجوں کے لیے سینکڑوں نئے اساتذہ کی بھرتی کا بھی حکم دیا ہے تاکہ جن علاقوں میں اساتذہ کی کمی ہے اسے دور کیا جائے۔ اس معاملہ میں میرٹ کے علاوہ جو اساتذہ جہاں کا رہائشی ہے اسے وہاں یا اس کے قریب سکول میں کالج میں تعینات کیا جائے تاکہ بھاگم بھاگ شہروں میں آنے کے رحجان میں کمی آئے اور دیہی اور پسماندہ علاقوں میں بھی اچھے استاد پڑھاتے نظر آئیں۔ ایک اچھا استاد ایک اچھے معاشرے کی بنیاد رکھتا ہے۔ ماں باپ بچے کو دنیا میں لاتے ہیں اور استاد اسے دنیا میں رہنا سکھاتا ہے۔ اگر سرکاری سکولوںاور کالجوں میں اچھے اساتذہ کام کر رہے ہوں اچھی تعلیم مل رہی ہو تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نام نہاد تجارتی سکولوں کالجوں میں داخل کرائیں۔ آج تک جو بڑے بڑے نامور لوگ ہمارے وطن میں نظر آ رہے ہیں یہ سب سرکاری سکولوں کالجوں کی پیداوار ہیں۔ انہیں اچھے اور اعلیٰ اساتذہ میسر تھے۔ آج بھی سرکاری سکولوں کو اس مقام پر لانا ہو گا جہاں وہ پہلے تھے۔ اس طرح پنجاب میں شرح خواندگی بڑھے گی بچے شوق سے تعلیم حاصل کریں گے۔ والدین کی کمر بھی تعلیمی اخراجات کے بوجھ سے ٹوٹنے سے بچ جائے گی۔
وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اس ضمن میں پرعزم بھی ہیں پُرجوش بھی تو امید ہے وزیر تعلیم مراد راس بھی اس نیک کام میں ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اچھا استاد اچھا سکول اور اچھا طالب علم ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو صرف سرکاری سکولوں میں ہی ممکن ہے ورنہ کے گھر میں سکول کھولنے والے میٹرک پاس سکول مالکان 5 ہزار پر میٹرک پاس ٹیچرز بھرتی کر کے ملک کے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کرتے رہیں گے۔ امید ہے اب گریجویشن تک مفت تعلیم کی بدولت وہ بچے جو آگے پڑھنا اور بڑھنا چاہتے تھے مگر مال دشواری کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے تھے اب اطمینان سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ اس پرویز الٰہی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔