بیوروکریسی میں گروپنگ


ملک میں جہاں سیاسی افراتفری عروج پر ہے بیوروکریسی بھی شدید اضطراب کا شکار ہے۔ وہ سوچتے ہیں وفاق میں پرائس پوسٹنگز لیں تو صوبہ ناراض ہو جائے گا۔ اب جائیں تو جائیں کہاں؟ ویسے تو بیوروکریسی گروپوں کی صورت میں من پسند سیٹیں حاصل کرتی ہے اور ایک دوسرے کے گروپ کو نیچا دکھانے کے لئے تمام حربے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ 
پنجاب میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے گریڈ 22 کے سینئر ترین افسر اور اپنے بااعتماد ساتھی محمد خان بھٹی کو پرنسپل سیکرٹری ٹو سی ایم تعینات کر دیا۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں موجود تمام گروپس نے اپنی اپنی مخالفت چھوڑ کر محمد خان بھٹی کے خلاف لابنگ شروع کر رکھی ہے۔ اُن کا خیال ہے بھلے محمد خان بھٹی گریڈ 22 میں ہوں مگر اُن کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ سے نہیں اس لئے سیکرٹری ٹو سی ایم انہیں ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ محمد خان بھٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا اعتماد حاصل ہے ہو سکتا ہے کہ وہ بیوروکریسی کی مذموم سازش کی بھینٹ نہ چڑھ سکیں مگر جو بیوروکریٹ کسی گروپ کا حصہ نہیں اُس کو بھی اچھی پوسٹنگ پر مختلف گروپ برداشت نہیں کرتے اور اگر اُن کا سیاسی بیک گراؤنڈ نہ ہو تو پھر اُن کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے!
 اسی طرح مختلف گروپس پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے افسران کو کس کس طرح ذاتی عناد کا نشانہ بناتے ہیں اس کی میں چند مثالیں لکھوں گا۔ شان الحق نے 21 سال کی عمر میں ملک میں اعلٰی ترین مقابلے کا امتحان پاس کیا اور اس وقت کی ڈی ایم جی اور آج کی پیس گروپ کو جائن کر لیا۔ 
شان الحق ملکی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے اور دل ہی دل میں ارمانوں کا پودا پروان چڑھتا رہا تھا کہ آنے والے وقت میں وہ ایک بڑا افسر بن کر نہ صرف ملک بلکہ عوامی خدمت کو بھی اپنے اولین فرائض کا حصہ بنائے گا۔
 شان الحق ایک ذہین اور عمدہ طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ خلقِ خدا سے محبت کا سرچشمہ بھی تھا۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا۔
 شان الحق کو کبھی بلوچستان یاترا کرائی گئی جہاں اسے اپنا گھر بار جو راولپنڈی میں واقع تھا، چھوڑ چھاڑ کر جانا پڑا مگر بلوچستان جا کر اس نے اپنے دل و دماغ کو اس کے لئے تیار کیا کہ بلوچستان ظاہری ترقی خوشحالی میں پنجاب سے کہیں پیچھے ہے۔ یہاں اپنا مشن ملک و قوم کی خدمت والا سلوگن زیادہ پایا اور وہ اپنی نوکری کو عبادت جان کر انجام دینے لگا مگر وہاں بھی شان الحق کی نوکری کے اس سٹائل کو بالکل پسند نہ کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے مدِمقابل افسران میں اُس کی مخالفت بڑھنے لگی تو نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ سارا دن شان الحق کے سامنے بیٹھ کر اسکے اقدامات کی تعریفوں کے پل باندھتے اور شام کو صاحب بہادر کے دربار پر حاضری دیتے ہوئے شان الحق کی ایسی کردار کشی کرتے جس کے بارے میں کوئی عام انسان سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ صاحب بہادر کی برین واشنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شان الحق کو خیبرپختونخواہ کا پروانہ تھما دیا گیا جسے لے کر وہ خیبرپختونخواہ آن پہنچا اور اپنی نوکری کا سٹائل درویشوں والا ہی رکھا اور نوکری کرنے لگا۔ آخر کار شان الحق کو بیوروکریسی کی نوکری کے لئے جنت سمجھے جانے والے صوبہ پنجاب کا حکم نامہ بھی موصول ہوا اب شان الحق کو پنجاب میں بزدار حکومت نے سپیشل سیکرٹری سکولز تعینات کر دیا جہاں وہ دل لگا کر کام کرنے لگا۔ 
سابق چیف سیکرٹری اور سینئر مینجمنٹ نے شان الحق کے کام کو سراہا اور اس کو کارکردگی کے بل بوتے پر اسے کمشنر ملتان تعینات کر دیا۔ اب شان الحق وہ 21 سالہ نوجوان نہیں رہا تھا۔ اب وہ زمانے کے رنگ اور ساتھیوں کی سازشوں اور منافقت سے اچھی طرح واقف تھا۔ خوش اسلوبی سے نوکری کرنے لگا۔ اچانک بزدار حکومت نے اپنے انتہائی قریبی افسر زاہد اختر زمان کو ڈی جی خان کی پروجیکشن اور جنوبی پنجاب کے سپیشل ٹاسک دیکر ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب تعینات کردیا گیا۔ زاہد اختر زمان نے بظاہر تو کمشنر ملتان شان الحق سے انتہائی شفیق رویہ رکھا اور حسب سابق اس کے کئے گئے اقدامات کی تعریفوں کے بل بھی باندھتے رہے۔ مگر بزدار حکومت اور خاص طور پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو روزانہ کی بنیاد پر بذریعہ واٹس ایپ مطلع کرنا شروع کر دیا کہ کمشنر ملتان کی نہ صرف کارکردگی ناقص ہے بلکہ وہ جنوبی پنجاب اور اس کی عوام کے مخالف کام انجام دے رہے ہیں۔ آخر کار ایک مرتبہ پھر ظالم بیوروکریسی کا لقمۂ اجل بن گیا اور انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وہ او ایس ڈی تھے چند روز قبل انہیں کسی غیر معروف سی پوسٹنگ پر بھجوا دیا گیا ہے۔ اب موصوف کو پتا چلا کہ ان کے اے سی ایس جنوبی پنجاب زاہد اختر زمان ہی ان کی بیڑیوں میں پتھر ڈالنے والے تھے۔ 
ہم سمجھتے تھے کہ بیوروکریسی آپس میں متحد ہوتی ہے اور کسی ایک افسر کے مفاد کے لئے تمام افسران متحد ہو جاتے ہیں۔ چند روز قبل الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا پر ایک سینئر بیوروکریٹ کا نام منظر عام پر آیا کہ ڈاکٹر کامران افضل کی جگہ بابر حیات تارڑ کو نیا چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا جارہا ہے۔ پنجاب نے وفاق کو ان کا نام پینل میں ٹاپ پر بھجوا دیا ہے۔ اسی دوران سوشل میڈیا پر ایک کمپین لانچ کر دی گئی جسے مختلف واٹس ایپ گروپس میں بھی شیئر کیا گیا ۔ مجھے بابر تارڑ کی کردار کشی کی مہم دیکھ کر انتہائی افسوس بھی ہوا اور اندازہ بھی ہوا کہ بابر حیات تارڑ بھی شان الحق کی جدید طرز ہے جو عوامی و ملکی خدمات کے پیش نظر اپنا پروفائل بنانا چاہتے ہیں نہ کہ سازشوں اور مدِمقابل افسران کی کردار کشی کر کے اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ بھی سمجھ آئی کہ بابر تارڑ کا بھی شان الحق کی طرح کوئی گروپ نہیں ہے میں بابر حیات تارڑ کو زیادہ قریب سے تو نہیں مگر خاصا جانتا ہوں بابر حیات حقیقت میں مٹا ہوا انسان ہے اور خلق خدا کی خدمت پر یقین رکھتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ جب کوئی افسر میرٹ یا اپنی کارکردگی پر اچھی پوسٹنگز پر لگنے کے لئے نامزد ہوتا ہے تو اس کی کردار کشی صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کا کوئی گروپ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ سیاستدانوں کا آلہ کار ہوتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن