مختلف وبائی امراض انسان اور دوسرے جانداروں کو صدیوں سے نقصان پہنچاتے آئے ہیں انتہائی سرعت سے پھیلنے کی طاقت رکھنے والے نت نئے وائرس تھوڑے سے عرصے میں بہت بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ستم بالائے ستم یہ کہ عام طور پہ ایسے وائرس کی دوا دستیاب نہیں ہوتی بس ملتے جلتے امراض کی دوا استعمال کی جاتی ہے جو بعض اوقات موثر ہوتی ہے اور بعض اوقات غیر موثر،اسی طرح کی جانوروں خصوصاً گائے کی خطرناک ترین لمپی سکن نامی بیماری نے اسوقت ملک کے طول و عرض میں تباہی مچا رکھی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں مویشی اس سی متاثر ہوئے ہیں جبکہ مرنے والے مویشیوں کی تعداد بھی یقیناً لاکھوں میں ہے یہ ایک وبائی مرض ہے شروع میں جانور کو ہلکا بخار ہوتا ہے پھر پاؤں سمیت جسم کے مختلف حصوں میں سوزش ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی پورے جسم پہ دانے نما پھوڑے نکل آتے ہیں جانور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور دوران بیماری بیٹھ بھی نہیں سکتا اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ جانور کئی کئی دن تک کھڑے رہنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔ بیمار جانور کا گوشت قابل استعمال نہیں رہتا کیونکہ پھوڑے گوشت میں بھی سرایت کر جاتے ہیں اسی طرح دودھیل جانور دودھ دینا بند کر دیتا ہے اگر بروقت بخار اور سوزش کا علاج نہ ہو سکے تو جانور مر جاتا ہے اس وقت تقریباً ہر علاقے میں مردہ جانوروں کی سڑکوں کنارے پڑی لاشیں اس مرض کی ہولناکی کا ثبوت ہیں چند کسانوں کی لاپرواہی حکومتی عدم توجہی اور بے حسی کے باعث یہ مرض سانحہ کی شکل اختیار کر چکا ہے غریب کسان کی زندگی بھر کی جمع پونجی یہی چند مویشی ہوتے ہیں جو اس کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہے ہیں۔ مختلف فارمز اور کسان بھائیوں سے اس حوالے سے بات ہوئی تو سب کا متفقہ مطالبہ تھا کہ اس مرض کو آفت قرار دے کر سدباب کی ہنگامی طور پہ کاروائیاں شروع کی جائیں کسانوں کے لیے احتیاطی تدابیر کی آگاہی مہم چلائی جائے اور مالی نقصان کے ازالے کیلیے پیکج اناؤنس کیا جائے کچھ فارمز اس موذی وائرس کو قدرتی آفت تسلیم کرنے پہ تیار نہیں ان کا موقف ہے کہ یہ وائرس خطے بھر میں پوری پلاننگ سے پھیلایا گیا ہے تاکہ تازہ دودھ اور گوشت سے عوام کو بدظن کیا جاسکے بعض لوگ اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کھلے دودھ کے خلاف مہم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے خیال میں اس مرض کا انسانوں میں منتقل ہونا ممکن نہیں تاہم متاثرہ جانور کے قریب جاتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاھیے ۔فیلڈ ٹیکنیشنز عمران اکرم اور محمد شمریز کا کہنا تھا کہ سرکاری ڈاکٹرز اور ٹیکنیشنز دن رات اس مرض کے متاثرہ علاقوں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں تاہم سٹاف اور فنڈز کی کمی،دواؤں کی قلت جیسے مسائل کا بھی محکمے کو سامنا ہے ۔طبی ماہرین کے مطابق لمپی سکن جانوروں کی متعدی بیماری ہے جو چچڑ، مکھی اور مچھر وغیرہ کے کاٹنے سے پھیلتی ہے اسی طرح یہ براہ راست جانور سے جانور تک بھی پھیل سکتی ہے اس مرض کا بنی نوع انسان میں پھیلنے کا ایک فیصد رسک بھی نہیں۔ اسی طرح برطانوی محکمہ صحت کی مستند تحقیق کے بعد قرار دیا گیا ہے کہ لمپی سکن حیوانات سے انسان میں پھیلنے والی (zoonotic) بیماری نہیں ہے۔ راجہ بلال علاقے کے بڑے فارمر ہیں ان کے فارم کو بھی لمپی سکن کا سامنا ہے لمپی سکن کے پھیلاؤ کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اسوقت پورا علاقہ اس مرض کی لپیٹ میں ہے فارمز سے لیکر گھریلوں پیمانے پہ رکھے گئے جانوروں تک میں یہ مرض شدت سے پھیل چکا ہے خصوصاً قربانی کے دنوں میں منڈی سے خریدے گئے جانوروں کی وجہ سے اس کے پھیلاؤ میں تیزی آئی تجربہ کار فارمر منصور حیدر نے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بتایا کہ صفائی کا سخت معیار اپنا کر اس مرض کے پھیلاؤ کو کم کیا جا سکتا ہے اس کے علاؤہ متاثرہ جانور کو علیحدہ کرنا بھی ضروری ہے ڈیری کے مستقبل کے حوالے سے نوجوان فارمر حماد عباس سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے کا مستقبل بہت غیر یقینی ہے دودھ اور ونڈے چارے کے ریٹ بڑھنے کے تناسب میں بڑے فرق اور طبی و دیگر سہولیات کی غیر موجودگی نے اس شعبے کو بستر مرگ پہ پہنچایا ہوا تھا کہ اوپر یہ آفت آنپڑی۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس وبائ کو آفت قرار دے کر فوری طور پر این ڈی ایم اے میونسپلٹی اور لائیو سٹاک کے اشتراک سے فوری ریلیف آپریشن شروع کیا جائے مردہ جانوروں اور ان کی آلائشوں کو مناسب طریقے سے تلف کیا جائے دواؤں کی فراہمی کو یقینی بنایا اور آگاہی مہم کے ذریعے کسان کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جائے تاکہ اس موذی وباء کا جلد تدارک ممکن ہو سکے اور اس کے نقصانات کو بھی کم کیا جاسکے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے اس موذی وبائ پہ کنٹرول صوبائی یا وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے نہ ہی اس حوالے سے کسی جامع پالیسی کا اعلان ہوا ہے ،فی الحال تو صورتحال یہ ہے کہ حکومت یوم آزادی پر ناچ گانے پہ کروڑوں اڑا رہی ہے لیکن مجبور و معتوب کسان کیلیے ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں یہی لمحہ فکریہ ہے۔