کتاب سے مصافحہ کیجئے

Aug 19, 2022

آج کئی سال پہلے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے ادبی صفحے پر میں نے رخسانہ نور کی نظموں کی کتاب ’’ الہام‘‘ پر تبصرے کرتے ہوئے ایک جملہ لکھا کہ ‘‘ مجھے  روزانہ کتابیں ملتی ہیں مگر ان میں کتاب کوئی کوئی ہوتی ہے ‘‘ میرے اس جملے کو بعد میں کئی دوستوں نے اپنے کالم اور مضامین میں اس فقرے کو شامل کیا ۔  سوشل میڈیا  کے ساتھ قارئین کتاب سے دور ہوتے چلے گئے ۔ ایک وقت ہوتا تھا کہ گلی محلوں میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں ۔ ناول ، افسانہ ، شاعری ، سفر نامے ، آب بیتیاں ، مذہبی اور فلسفیانہ کتب کے علاوہ ڈائجسٹ اور دیگر رسالہ جات بھی دستیاب ہوتے تھے  اور  پڑھنے والے بڑے اہتمام سے کتب حاصل کرتے اور ہم جیسے تو ایک ہی نشست میں کتاب ختم کرنے کی کوشش کرتے ۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہوا کرتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ کرایہ بچانا ہے اور دوسرے دن کی دوسری کتاب حاصل کرنی ہے اور دوسرے متجسس طبیعت کہ کتاب کو اختتام کہاں ہو گا ۔ کتاب سے محبت کرنے والے  احباب ایک دوسرے کو کتاب پڑھتے کی سفارش کرتے کہ فلاح کتاب ضرور پڑہیے۔جب کوئی دوست کسی کتاب  بارے سفارش کرتا تو اس وقت تک چین نہیں پڑتا تھا جب تک کہ وہ کتاب پڑھ نہ  لیتے تھے ۔ اس کے بعد باقاعدہ کتاب بارے بحث مباحث ہوتے تھے۔ سکول اور کالج میں ایسے اساتذہ کثیر تعداد  میں ہوتے تھے جو بچوں کو کتاب کی باقاعدہ ترغیب دیتے اور اچھی کتابوں کی سفارش بھی کرتے تھے ۔محلہ اور لائبریریوں کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کتب خانے بھی ہوتے تھے جیسے بلدیہ لائبریری ، کنٹونمنٹ لائبریری ، قومی لائبریری ، نیشنل سینٹر کی لائبریری اور ہر سکول اور کالج میںا ہتمام کے ساتھ لائبریریاں ہوتی تھیں کمیونٹی لائبریریوں میں روزانہ کے اخبارات بھی آتے ہیں جسے آبادی کے پڑہے لکھے روزانہ  صبح یاشام کو ان کا مطالعہ کرتے تھے ۔  سرکاری یا کمیونٹی کی سالانہ ممبر شپ فیس بھی ہوا کرتی تھی جو بہت مناسب ہوتی تھی ۔ آپ پھر سال بھر اس لائبریری سے کتب کا اجراء کرا کر پڑہنے کو شوق پورا کرتے یونیورسٹی کے طلباء طالبات حوالہ جاتی کتب حاصل کرتے اور اپنے مقالہ جات کی تکمیل کرتے  یوں کتاب سے محبت اور لگائو آپ کا شوق مطالعہ  بڑھاتا تھا ۔ شہر یا قصبے میں اگر کوئی مشاعرہ ہوتا تو بڑی تعداد میں سامعین موجود  ہوتے اور اچھے اشعار پر کھل کر داد دیتے تھے ۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا اور دنیا میکانکی اور ترقیاتی نظام  میں داخل ہونے لگی ۔ کمپیوٹر ، لیپ ٹاب اور پھر موبائل نے ہاتھوں سے کتاب چھین لی ۔
ہم جدید ٹیکنالوجی کے ہر لحاظ سے احسان مند ہیںکہ اس نے دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا  ۔ ہزاروں میل کے فاصلے آپکی انگلیوں کی پوروں کے نیچے دب پر رہ گئے ۔ پوری دنیا کا ادب ، ثقافت ، تاریخ ، جغرافیہ ، مذاہب ، ایک کلک سے کھلنے لگے ۔ مگر وہ جو کتاب کا لمس اور خوشبو ہوتی تھی اس سے ہم دور ہوتے چلے  جا رہے ہیں۔ میںنیشنل لائبریری آف پاکستان کا  ایمبیسیڈر ہوں ۔  ڈائریکٹر جنرل نیشنل لائبریری سید غیور حسین نے کتاب سے محبت اور لائبریری کی اہمیت کے حوالے سے گرانقدر خدمات سر انجام دیں مگر صدحیف کہ کرونا جیسی موذی وباء نے انہیں ہم سے چھین لیا۔ان کی کاوش کے نتیجے میں سینکڑوں طلبا و طالبات روزانہ اس لائبریری کا رخ کرتے ہیں ۔ اسی طرح نیشنل بک فائونڈیشن کے سابق ایم ڈی معروف محقق شاعر اور ادیب ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے پاک چائنا سنٹر اسلام آباد میں سالہا سال کتاب سینٹر سجا کر ہزاروں لوگوں اور طلباء کو کتاب خریدنے اور پڑھنے کی ترغیب دی۔تحریک انصاف حکومت میں وزیر تعلیم نے سالہا سال سے چلنے والا وہ کتاب میلہ ختم کر دیا۔بہر حال ہر حکومت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ۔بات ہو رہی ہے کتاب کی اہمیت اس کا لم اور دوسروں کو کتاب کی طرف لانا ۔اکثر صاحبان علم بچوں کو اور بڑوں کو بھی کتاب کا تحفہ دینا پسند کرتے ہیں ۔یورپ جدید ٹیکنالوجی کا موجد کہلایا جاتا ہے ۔مگر وہاں اب بھی کتاب پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک شائع ہوتی ہے ۔لوگ دوران سفر مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں اور اگر سفر کے دوران کتاب پڑھ لی جاتی ہے تو زیادہ تر لوگ کتاب ٹرین یا جہاز میں بھی چھوڑ دیتے ہیں تا کہ بعد میں آنے والا مسافر ا س سے مستفید ہوسکے۔ ہمارے ہاں اب جو ادبی کتابیں شائع ہوتی ہیںان پر تعداد اشاعت ایک ہزار لکھا ہوتا ہے مگر حقیقت اس کے بھی برعکس ہے۔عموما ً تین سو سے پانچ سو تک شائع ہوتی ہیں ۔ستمبر 2019ء میں بحیثیت ایمبسیڈر نیشنل لائبریری آف پاکستان میں دنیا کی پہلی پینٹنگ نمائش کا اہتمام کیا جس کا تھیم ( Books anf Likeraries ) تھا۔ اس میں پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے مصوروں نے بھی حصہ لیا ۔یہ نمائش ایک طویل مدت جاری رہی ۔تقریباً 74 پینٹنگز کی وہ عظیم الشان نمائش کے چرچے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں ہیں ۔ابھی تک اس موضوع پر دنیا بھر میں پہلی اور فی الحال آخری نمائش تھی۔جو کتاب اور لائبریری کے موضوع پر کرائی گئی ۔ان تمام سرگرمیوں کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ قاری کو دوبارہ کتاب کی طرف لایا جا سکے ۔اس سلسلے میں حکومت وقت اگر تھوڑی سی توجہ دے تو کتاب سستی بھی ہو سکتی ہے اور کتاب پڑھنے کا رجحان دوبارہ لوٹایا جا سکتا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ادبی چرچے کسی زمانے میں درجنوں کے حساب ہوا کرتے تھے ۔کاغذ مہنگا ہونے اور پرنٹنگ پریس کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب پورے ملک سے آٹے میں نمک سے بھی کم ادبی رسائل شائع ہوتے ہیں ۔زیادہ تر اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں ۔اس سلسلے میں حکومت اگر سرپرستی کرے تو ادبی رسائل دوبارہ شائع ہو سکتے ہیں ۔اکیڈمی ادبیات اپنے محدود وسائل کے باوجود موجود چیزیں پروفیسر ڈاکٹر یوسف خٹک کی فکری اور علمی سوچ کے نتیجے میں بہت تیزی کے ساتھ اچھے کام کر رہی ہے ۔اگر اس ادارے کو بھی مزید بہتر فنڈز اور سہولتیں فراہم کی جائیں تو کتاب کا کلچر پہلے کی طرح فروغ پاسکتا ہے ۔

مزیدخبریں