اصغر علی شاد
غیرجانبدار حلقوں نے اس امر کو خصوصی توجہ کا حامل قرار دیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ٹی ٹی پی کے اندر باہمی اختلافات شدید تر ہو گئے ہیں اور ان میں باقاعدہ لڑائی شروع ہو چکی ہے۔اسی ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نور ولی محسود گروپ نے خوست میں گل بہادر گروپ پر حملے کے بعد جماعت الاحرار پر باقاعدہ حملے شروع کر دیے ہیں۔اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ نور ولی محسود نے اسد آفریدی کو قلعہ سیف اللہ پر حملے کے بارے ٹی ٹی پی کے راز افشائ کرنے پر ولایت کے منصب سے فوری ہٹا دیا تھااور بعد ازاں مختلف بیانات جاری کرنے پر نورولی محسود نے اسد آفریدی کو راستے سے ہٹانے کیلئے اسکے سر کی قیمت باقاعدہ طور پر مقرر کی تھی۔اسی سلسلے میں محسود گروپ کے کارندوں نے اسد آفریدی کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔
غیر مصدقہ تفصیلات کے مطابق دوست محمد عرف اسد آفریدی افغانستان کے لال پورہ میں ایک فضائی حملے میں مارا جا چکا ہے۔اس ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے انکار کے باوجود، مارے گئے رہنما نے کئی کارروائیوں کا کریڈٹ بھی لیا تھا، جن میں گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے ڑوب میں پاکستانی فوجی چوکی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اس کے علاوہ اس نے ٹی ٹی پی کی مرکزی شوری پر ڈی آئی خان ڈسٹرکٹ کے قائم مقام گورنر کے عہدے سے برطرف کرنے پر تنقید کی تھی۔واضح ہے کہ ٹی ٹی پی اور اس کے دھڑے جماعت الاحرار کے درمیان ڑوب حملے کے بعد اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور اس کی وجہ سے آفریدی کو شیڈو گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ٹی ٹی پی نے آفریدی کو حملے سے متعلق ان کے بیانات پر خبردار کیا تھا
یاد رہے کہ جماعت الاحرار کے کمانڈرز نے سربکف مہمند اور عمر خالد خراسانی کے قتل کا ذمے دار بھی نورولی محسود کو قرار دیا تھا۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے باخبر ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ پچھلے سات میں دہشت گردوں کے حملوں میں کافی شدت آئی ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ ایک ماہ قبل یعنی 25جولائی کوخیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں تھانہ علی مسجد کی حدود میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شہید ہوگئے تھے۔مبصرین کے مطابق چھ ماہ قبل 30جنوری کو پشاور پولیس لائنز میں بھی خودکش دھماکا ہواتھا جس کے نتیجے میں 100سے زیادہ نمازی شہید ہو ئے جبکہ 60کے قریب لوگ شدید زخمی ہوئے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس تما م معاملے کا یہ پہلو غور طلب ہے کہ کوئی گناہ کار سے گناہ کار مسلمان بھی نماز کے دوران کسی کی جان لینے کا تصور بھی نہیں سکتا لہذا خودکش حملہ آوروں کو مسلمان قرار دینا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ایسے میں یقینا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو مساجد پر حملے کر رہے ہیں کیوں کہ مساجد پر حملے کرنے والے نام نہاد مسلمان تو کافروں سے بھی بدتر ہیں۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے کے پی،بلوچستان اور ملک کے کئی دیگر حصے دہشت گردی کی نئی لپیٹ میں ہیں۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے تدراک کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی صحیح روح کے مطابق عمل کرنے کی جانب موثر پیش رفت ہو کیوں کہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ضرب عضب اور آپریشن رد السفاد کے نتیجے میں فسادیوں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا مگر بد قسمتی سے باوجوہ یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
دوسری جانب یہ بات حوصلہ افز ا ہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان سے باہر جہاد کرنے پر سپریم افغانی لیڈر ہیبت اللہ اخونزادہ نے احکامات جاری کر تے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی افغان شہری اور افغان عبوری حکومت کا رکن جہاد اور عسکریت پسندی کے لیے افغانستان کی سرحد پار نہیں کرے گا، جو لوگ عسکریت پسندی کے لیے پاکستان گئے، اگر مارے گئے تو وہ شہید نہیں کہلائیں گے بلکہ ان کی موت کو ناپاک قرار دیا جائے گا۔ ملا اخونزادہ کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات میں واضح کہا گیا کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مزید افغانستان کی عبوری حکومت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گااور پاکستان میں کسی بھی افغان شہری کے قتل کے بعد عبوری افغان حکومت کا کوئی نمائندہ اس کے جنازے میں شرکت نہیں کرے گا۔ اسی طرح 5 اگست 2023 کو افغان وزیر دفاع ملا یعقوب نے واضح احکامات دیئے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان سے باہر کسی جنگ میں افغانوں کی شرکت نہ ہو۔افغان وزیر دفاع نے کہا کہ افغان شہریوں اور مجاہدین کی ملک سے باہر شرکت کو جنگ تصور کیا جائے گا اور اسے جہاد کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے تمام مجاہدین کو مشورہ دیا کہ وہ کہیں اور لڑنے کے بجائے افغانستان کی تعمیر نو میں تعاون کریں۔
مبصرین کے مطابق توقع کی جانی چاہیے کہ سپریم افغان رہنما اور حکومت اپنے ان اعلانات کو عملی جامعہ پہنائے گی تاکہ پاک افغان تعلقات میں درپیش مشکلات پر موثر ڈھنگ سے قابو پایا جائے۔