تحمل مزاجی، برداشت اور باہمی احترام کے فروغ کی ضرورت!!!!

جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اسکا دفاع تو نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر یہ معاشرے کا سب سے تشویشناک پہلو ہے کہ یہاں قانون کو ہاتھ میں لینا بہادری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون توڑنا بہادروں کا شیوہ ہے اور ملک میں قانون توڑنا اور ملکی قوانین کو پاوں تلے روندنا قوانین پر عملدرآمد سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ بالخصوص جب کوئی بپھرا ہوا گروہ ہو تو وہاں ایسی صورتحال اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ملک میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں اور آئندہ کے لیے بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ چونکہ ہم نہ تو غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں نہ ہی ہمارے نزدیک کسی دوسرے کی کوئی اہمیت یا حیثیت ہے اور اس معاملے میں مذہبی تقسیم کوئی خاص یا بنیادی وجہ نہیں ہے بلکہ ہم اجتماعی طور پر ہی اس بری سوچ کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص دوسرے کو کم تر سمجھتا ہے، دوسرے کو بددیانت، بداخلاق، مذہب سے دور، ظالم اور متکبر سمجھتا ہے۔ دوسروں کے بارے بات کرتے ہوئے بے رحمی سے تجزیہ کرتا ہے لیکن کبھی شیشے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ سے سوال نہیں کرتا کہ خود کیا ہے۔ چونکہ ہر وقت دوسروں کو کمتر سمجھنا اور نشانہ بنانا عادت بن چکی ہے اس لیے جب کبھی چند سر پھرے کچھ ایسا حساس اور جذبات بھڑکانے والا کام دیکھتے یا کرتے ہیں تو پھر وہ پہلے سے ہی گرم مزاج افراد کے جذبات کو ابھارتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ناصرف دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بدامنی کے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور بیرونی طور پر پاکستان کو دباؤ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکمل طور پر مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے لیکن وہاں ہونے والے افسوسناک واقعات پر دنیا کم ہی ردعمل دیتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کوئی بھی افسوں واقعہ ہو تو عالمی طاقتیں فورا بیانات جاری کرتی ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اکا دکا واقعات کو ایک طرف رکھ کر بات کی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو کسی قسم کی رکاوٹ یا روک ٹوک نہیں ہے اور پاکستان میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو مکمل آزادی ہے۔ جڑانوالہ میں ہونے والا واقعہ ملک یا معاشرے کی حیثیت سے پاکستان کی عکاسی ہرگز نہیں کرتا لیکن پھر بھی پاکستان کو نشانے پر رکھنے والے ممالک فوری طور پر ردعمل دیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے ساتھ ہونے والے ظلم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اس واقعے کے ذمہ داروں کی مرمت بھی ہونی چاہیے اور جس وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے۔ تاکہ کوئی بھی ذمہ دار کسی بھی حوالے سے قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے۔
آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس واقعے کو انتہائی افسوس ناک اور ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ "جڑانوالہ کا واقعہ انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے، اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہائی رویے کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان کے تمام شہری بلا تفریق مذہب، جنس، ذات یا عقیدہ ایک دوسرے کیلئے برابر ہیں، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ نوجوان سچ، آدھا سچ، جھوٹ اور غلط معلومات کا فرق سمجھیں۔"چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کہتے ہیں کہ "اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کا بنیادی فرض ہے، سپریم کورٹ اقلیتوں کے حقوق کی امین ہے۔ اقلیتوں کو  درپیش چیلنجز کے لیے مشترکہ کاوشوں کی ضرورت ہے، آئین پاکستان اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، ہر پاکستانی کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔"
تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور ذمہ داروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ  طاہر محمود اشرفی نے سب سے بڑھ کر کام کیا ہے وہ مسیحی برادری سے معذرت اور اظہار یکجہتی کیلیے چرچ جا پہنچے۔ حافظ طاہر محمود اشرفی جڑانوالہ واقعے پر مسیحی برادری سے معافی مانگنے کیلئے چرچ میں پہنچے اور کہا کہ "جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اس سے پاکستان اور اسلام کو زخم لگا۔ پورا پاکستان غمزدہ ہے، جن لوگوں نے یہ عمل کیا ان سے سوال ہے کہ کس کو خوش کرنے کیلئے یہ سب کیا۔" 
تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی اور اداروں کو ملک میں ہر قسم کی شدت پسندی کو ختم کرنے کے لیے مضبوط حکمت عملی بناتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ ملک میں دہائیوں تک ہونے والی دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نوجوان بدظن ہے۔ نوجوانوں کی سوچ کو مثبت بنانے اور انہیں صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ ڈیجیٹل سیکیورٹی کی طرف جانا ہو گا۔ گاؤں ہوں یا شہر ہر جگہ مساجد، امام بارگاہ، مزارات، چرچ، مندر، گوردوارہ سمیت تمام عبادت گاہوں کی سیکیورٹی مکمل طور پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونی چاہیے۔ معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے یہاں تعیناتیوں کا بہتر نظام بھی وضع کرنا ہو گا۔ ریاست ان حالات میں سب کو کھلی آزادی نہیں دے سکتی۔ سب کو بیٹھ کر شدت پسندانہ سوچ سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی اور افسوسناک اور ناخوشگوار واقعے کا انتظار نہ کرنا بہتر ہو گا۔ ہم ہر وقت سانحات کے منتظر کیوں رہتے ہیں۔
خبر ہے کہ پنجاب حکومت نے لاہور کے الحمرا ہال میں کمرشل سٹیج ڈراموں پر پابندی لگا دی۔نگران حکومت نے یہ فیصلہ سٹیج ڈراموں کے نام پر فحش ڈانس کرانے اور عریانی پھیلانے پر کیا ہے۔
یار لوگ پوچھتے ہیں کہ عریانی کیا ہے کیونکہ عریانی اور فحاشی کے معیار بھی افسروں کے تبادلے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ حکومت بدلی قانون بدل گیا، افسر بدلا قانون نے آنکھیں بدل لیں، افسر بدلا قانون حرکت میں آ گیا۔ جس بنیاد پر الحمرا میں کمرشل سٹیج ڈراموں پر پابندی لگی ہے کیا پنجاب کے دیگر شہروں میں ہونے والے ڈراموں پر بھی اسی قانون کے تحت پابندی لگ سکتی ہے اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر الحمرا میں کمرشل ڈراموں پر پابندی کا کیا جواز باقی رہتا ہے۔ بہرحال حکومت پابندی لگائے لیکن تفریح کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بھی کام کرے۔ 
آخر میں نواب مرزا داغ دہلوی کا کلام
تمہارے  خط  میں نیا  اک  سلام  کس کا تھا
نہ  تھا  رقیب  تو   آخر   وہ   نام  کس  کا  تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ  کام  کس  نے  کیا  ہے  یہ  کام  کس  کا  تھا
وفا   کریں   گے   نباہیں   گے   بات   مانیں  گے
تمہیں  بھی  یاد  ہے  کچھ  یہ کلام کس کا تھا
رہا   نہ  دل  میں   وہ   بے   درد   اور   درد   رہا
مقیم    کون    ہوا    ہے    مقام    کس   کا    تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمہاری   بزم   میں   کل   اہتمام   کس   کا   تھا
تمام   بزم   جسے   سن   کے   رہ   گئی   مشتاق
کہو     وہ     تذکرہ    ناتمام     کس    کا     تھا
ہمارے  خط  کے  تو  پرزے  کئے  پڑھا  بھی  نہیں
سنا  جو  تو  نے  بہ  دل  وہ  پیام   کس   کا   تھا
اٹھائی  کیوں  نہ  قیامت  عدو  کے  کوچے  میں
لحاظ   آپ   کو    وقت    خرام    کس   کا   تھا
گزر  گیا  وہ  زمانہ   کہوں   تو   کس   سے   کہوں
خیال  دل  کو  مرے  صبح   و  شام  کس  کا  تھا
ہمیں   تو  حضرت   واعظ   کی   ضد   نے  پلوائی
یہاں     ارادہ   شرب    مدام    کس     کا     تھا
اگرچہ    دیکھنے    والے      ترے    ہزاروں    تھے
تباہ    حال    بہت    زیر    بام     کس    کا   تھا
وہ  کون  تھا  کہ  تمہیں  جس  نے  بے  وفا  جانا
خیال   خام   یہ   سودائے   خام   کس   کا    تھا
انہیں   صفات   سے    ہوتا    ہے   آدمی   مشہور
جو   لطف   عام   وہ   کرتے   یہ  نام کس کا تھا
ہر   اک   سے  کہتے  ہیں  کیا  داغ  بے  وفا  نکلا
یہ  پوچھے  ان  سے  کوئی  وہ  غلام  کس کا تھا

ای پیپر دی نیشن