دماغ کی پرورش اور مظبوط بنانے کی تربیت ضروری

     ڈاکٹر رابعہ نذیر
rabianazir01@yahoo.com 
     دماغ کو بڑھانے کی تربیت دینے کے لیے ضروری ہے کہ مشکلات کو قبول کرنا، ناکامیوں سے سیکھنا، اور رکاوٹوں کے سامنے استقامت سے کام کرنے کو اپنی عادت بنایا جائے۔
یہاں کچھ اقدامات ہیں جو  دماغ کو بڑھانے اور ترقی دینے کے لئے کیے جا سکتے ہیں:
مشکلات کو قبول کریں:
 مشکلات کو ترقی اور سیکھنے کا موقع تصور کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ ہر مشکل کسی خطرے کا پیش خیمہ ہے، کیوں کہ ایسا نہیں ہے۔ 
ناکامیوں کو تجربات سمجھیں:
 سیکھنے کے عمل کا حصہ فطری طور پر ناکامی ہے اور اسے بہتری کا موقع بنانے والے لوگ زندگی میں ناقابل یقین حد تک کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
اپنی صلاحیت کو بہتر بنانے کا اعتقاد رکھیں: 
محنت اور مخصوص وقفے کے ساتھ، اپنے مہارت اور صلاحیت کو نکھارنا ایک طویل سفر ہے۔ کامیابی کی راہ اپنانے کے لیے آپ کو اس سفر میں شامل ہونا پڑے گا۔
 رکاوٹوں کے سامنے استقامت سے کام کریں۔ سختیوں کے باوجود مستقل رہیں اور اپنا سفر جاری رکھیں۔
فیڈبیک سے سیکھیں:
دوستوں ، رشتہ داروں اور خیر خواہ جان پہچان والوں کی تعمیری تنقید کو خوش آمدید کہیں اور اسے بہتری کے لئے ایک اوزار کے طور پر استعمال کریں۔
محنت اور ترقی کا جشن منائیں: 
یہ مت سمجھیں کہ آخر میں کامیابی ہی صرف کامیابی ہے۔ ہر روز جو آپ محنت کرتے ہیں وہ روزانہ کی کامیابی ہے اور اس پر فخر کرنا اور اپنی کوشش سے خوش ہونا ضروری ہے۔ محنت اور ترقی کے سفر کا ہر لمحہ جشن کے طور پر منایا جا سکتا ہے۔
منزل کے علاوہ سفر کو بھی پرکشش بنائیں : سیکھنے اور بڑھنے کے عمل کا لطف اٹھائیں، صرف مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کی خوشی سے مشروط نہ کریں۔
دماغ کو صحتمند رکھنے والے افراد کو ہمسفر بنائیں اور ان کے ساتھ میل جول رکھیں:
 ایک دوسرے کی حمایت اور مدد کرنے اور انسپائر کرنے والے لوگوں سے ملنا آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے۔
مسلسل سیکھیں اور جاننے کا تجسس رکھیں: متجسس رہیں اور نئی چیزیں سیکھنے اور ترقی کرنے کے مواقع  نہ صرف تلاش کریں بلکہ پیدا کریں۔
ان اقدامات کو اپنی روزمرہ زندگی میں شامل کرکے، آپ اپنے دماغ کو  بڑھا سکتے ہیں اور دماغ کی بہترین پرورش کرسکتے ہیں اور وقت کے ساتھ شخصی اور پیشہ ورانہ ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔

بھوک اور وزن میں کمی،جوڑوںکا درد،متلی، چہرے کا رنگ تبدیل ہونا بنیادی علامات 

ہیپاٹائٹس اے گندا پانی اور
 بی ۔سی ا ستعمال شدہ سرینج ، استرے، اورسرجری کے آلات سے پھیلتا ہے

میگزین رپورٹ

بہت سے لوگوں کی خوراک دیکھ کر آپ سوچتے ہیں کہ کوئی اتنا زیادہ کیسے کھا سکتا ہے؟ ایسے لوگ بھوک نا ہوتے ہی بھی ہروقت کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ زیادہ کھانا صحت مند ہونے کی نشانی نہیں بلکہ یہ ایک بیماری بھی ہو سکتی ہے۔اس بیماری کا نام بلیمیا (بو۔لی۔می۔اوہ) نرووسا، جسے عام طور پر بلیمیا کہا جاتا ہے۔ یہ کافی سنگین اور عجیب قسم کی بیماری ہے۔ اس کا شکار لوگ اپنے کھانے کی عادت پر کنٹرول کھو دیتے ہیں۔پھر اس بے تحاشا کھائے ہوئے کھانے سے حاصل کی گئی کیلوریز سے غیر صحت مندانہ طریقہ سے جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان طریقوں میں ادویات کے سہارے مصنوعی طور سے بے تحاشا قے کرنا، ضرورت سے زیادہ خود کو بھوکا رکھنا، وزن کم کرنے والے سپلیمنٹس کے اضافی استعمال یا پھر اتنہائی سخت ورزش شامل ہے۔کچھ ریسرچز اس کو جنیٹک ڈس آرڈر کہتی ہیں، جبکہ کچھ ریسرچز کے مطابق اس کی بنیادی وجہ جذباتی اتار چڑھاؤ یا سماجی رویوں کی سختی بھی ہے۔لیڈی ڈیانا نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں اپنی اس بیماری اور اس سے متعلق جنگ کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے علاوہ لیڈی گاگا، برٹنی سپیئرز، رچا چڈا اور ایلٹن جان جیسے لوگ بھی اس بیماری کا شکار رہے ہیں اور اس کے علاج کے لیے باقاعدہ کوشش کی ہے۔ یہ بیماری عموما ٹین ایج میں ہی سامنے آجاتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ 15 سے 19 سال تک کے بچے اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس کی علامات میں سب سے اہم علامت یہ ہے کہ اپنے وزن اور جسمانی ساخت کو لے کر ہر وقت اپنے کھانے کا حساب کتاب کرتے رہنا۔ اس کے علاوہ اچانک بہت زیادہ کھانے کا دورہ پڑنا یا کھانے پر کنٹرول نہ رہنا، زبردستی خود کو بے تحاشا ورزش پر مجبور کرنا، وزن کم کرنے کے لیے ادویات استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ بہت زیادہ کھانا موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔ مگر اگر آپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ آپ بلیمیا کا شکار ہیں تو علاج میں دیر نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موجودگی کافی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے، جس میں خواتین میں ماہواری کے مسائل، نظام ہضم کے مسائل، دانتوں اور مسوڑھوں کی تکالیف، ڈی ہائیڈیریشن، دل کے امراض یا نشہ آور ادویات کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ اس ضمن میں احتیاطی تدابیر بچوں کی ٹین ایج سے ہی اختیار کر لینی چاہیے ہیں تاکہ وہ اس میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں۔

 خیر خواہ جان پہچان
 والوں کی تعمیری تنقید کو خوش آمدید کہیں

ای پیپر دی نیشن