میگزین رپورٹ
بہت سے لوگوں کی خوراک دیکھ کر آپ سوچتے ہیں کہ کوئی اتنا زیادہ کیسے کھا سکتا ہے؟ ایسے لوگ بھوک نا ہوتے ہی بھی ہروقت کھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ زیادہ کھانا صحت مند ہونے کی نشانی نہیں بلکہ یہ ایک بیماری بھی ہو سکتی ہے۔اس بیماری کا نام بلیمیا (بو۔لی۔می۔اوہ) نرووسا، جسے عام طور پر بلیمیا کہا جاتا ہے۔ یہ کافی سنگین اور عجیب قسم کی بیماری ہے۔ اس کا شکار لوگ اپنے کھانے کی عادت پر کنٹرول کھو دیتے ہیں۔پھر اس بے تحاشا کھائے ہوئے کھانے سے حاصل کی گئی کیلوریز سے غیر صحت مندانہ طریقہ سے جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ان طریقوں میں ادویات کے سہارے مصنوعی طور سے بے تحاشا قے کرنا، ضرورت سے زیادہ خود کو بھوکا رکھنا، وزن کم کرنے والے سپلیمنٹس کے اضافی استعمال یا پھر اتنہائی سخت ورزش شامل ہے۔کچھ ریسرچز اس کو جنیٹک ڈس آرڈر کہتی ہیں، جبکہ کچھ ریسرچز کے مطابق اس کی بنیادی وجہ جذباتی اتار چڑھاؤ یا سماجی رویوں کی سختی بھی ہے۔لیڈی ڈیانا نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں اپنی اس بیماری اور اس سے متعلق جنگ کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے علاوہ لیڈی گاگا، برٹنی سپیئرز، رچا چڈا اور ایلٹن جان جیسے لوگ بھی اس بیماری کا شکار رہے ہیں اور اس کے علاج کے لیے باقاعدہ کوشش کی ہے۔ یہ بیماری عموما ٹین ایج میں ہی سامنے آجاتی ہے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ 15 سے 19 سال تک کے بچے اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس کی علامات میں سب سے اہم علامت یہ ہے کہ اپنے وزن اور جسمانی ساخت کو لے کر ہر وقت اپنے کھانے کا حساب کتاب کرتے رہنا۔ اس کے علاوہ اچانک بہت زیادہ کھانے کا دورہ پڑنا یا کھانے پر کنٹرول نہ رہنا، زبردستی خود کو بے تحاشا ورزش پر مجبور کرنا، وزن کم کرنے کے لیے ادویات استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ بات بھی ماننے والی ہے کہ بہت زیادہ کھانا موٹاپے کا سبب بنتا ہے۔ مگر اگر آپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ آپ بلیمیا کا شکار ہیں تو علاج میں دیر نہ کریں۔ کیونکہ اس کی موجودگی کافی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے، جس میں خواتین میں ماہواری کے مسائل، نظام ہضم کے مسائل، دانتوں اور مسوڑھوں کی تکالیف، ڈی ہائیڈیریشن، دل کے امراض یا نشہ آور ادویات کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔ اس ضمن میں احتیاطی تدابیر بچوں کی ٹین ایج سے ہی اختیار کر لینی چاہیے ہیں تاکہ وہ اس میں مبتلا ہونے سے بچ جائیں۔