افریقہ میں پیڑس لوممبا نام کاایک مشہور اور نوجوان لیڈر تھا،جس نے کنگو کوبیلجیم سے جون 1960میں آزاد کرایا اورکنگو کاپہلا وزیر اعظم بھی بنا۔1961میں ان کابڑی بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔پوری دنیا اس نوجوان کی موت پر ماتم منارہی تھی اورایشیائی اورافریقی ممالک میں ان کی موت پر ہر سوجلوس نکالے جارہے تھے۔
اسی درمیان دہلی میں انٹرنیشنل پیس کانفرنس ہورہی تھی جس میں دنیا جہان سے ،خاص طورپر اٹلی اورفرانس سے عظیم ترین ہستیاں شرکت کررہی تھیں۔بہت سے ہندوستانی مصنفین اورشعراء کوبھی اس کانفرنس میں مدعو کیاگیا تھا۔
بمبئی سے اس پروگرام میں شرکت کیلئے سردار جعفری ،سجاد ظہیر،خواجہ احمد عباس ،جاں نثاراختر اورمیں بھی آیاتھا۔اس پروگرام کے دوران سردارجعفری نے مجھ سے پوچھا،"ساحر صاحب! آپ نے کیالکھا ہے اس موقع پر"میں نے بتادیا کہ کچھ نہیں لکھا ہے ،جوسچ بھی تھا۔
سردار چونک کرکہنے لگا،"ارے بھائی !تم بمبئی سے دہلی اس پروگرام میں جس مقصد سے آئے ہو ،اس پرکچھ بھی نہیں لکھا؟"
میں نے فطرت کے مطابق جواب دیا،"یہاں تمام لوممبہ کی موت کاماتم منارہے ہیں ،مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسے موقع پرکیالکھناچاہیئے۔"
اس پر سردار صاحب بولے،"لیکن شام کو مشاعرے میں جب آپ کوکچھ سنانے کیلئے کہاجائے گاتوکیاکروگے،کیاسنائوگے؟آخر تم اب ایک مشہور شاعرہو۔"سجاد ظہیربھی خودکو روک نہیں پائے اورکہنے لگے۔
ارے بھائی ساحر!یہ ہماری خودداری کی بات ہے۔آخر ہم لوگ بمبئی سے یہاں اسی مقصد سے توآئے ہیں۔"اس درمیان سردار صاحب نے مجھ سے کلام لکھوانے کیلئے ترکیب سوچ لی۔ترکیب یہ تھی کہ وہ ایک چکن سینڈوچ اورسگریٹ کی ڈبیہ لے آئے اورمجھے ہوٹل کے ایک کمرے میں یہ کہہ کر بند کر دیا کہ وہ لوگ چارگھنٹوں کے بعد آکریہ دروازہ کھولیں گے۔
سردارصاحب کی ترکیب رنگ لاچکی تھی ،وہ لوگ جب واپس آئے تومیری نظم تیار تھی اورہم سب لوگ مشاعرے کیلئے نکل پڑے۔ شام کو مشاعرے میں جب میری باری آئی تومیں نے "خون پھر خون ہے "نظم پڑھی اورنظم کااثر یہ تھا کہ جیسے محفل کوسانپ سونگھ گیاہو۔
ظلم پھر ظلم ہے ،بڑھتا ہے تومٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گاتوجم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یاکف قاتل پہ جمے
فرشِ انصاف پہ یاپائے سلاسل پہ جمے
تیغ بے دارپہ یالاشئہ بسمل پہ جمے
خون پھرخون ہے ٹپکے گاتوجم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کاسراغ
سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کو نقاب
لے کے ہربوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسواسے کہو
جبر کی حکمت پرکارکے ایما سے کہو
محملِ مجلس اقوام کی لیلی سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ ء تند ہے ،خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دباناچاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ ،کہیں نعرہ،کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں میں
سراٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں میں
٭…٭…٭