بحیرہ احمر کے نیلے پانیوں اور سعودی عرب کے شمال مغرب میں سرخ ریت کے ٹیلوں کے درمیان علاقے حقل ترقی کر رہا ہے۔ یہاں سمندری ساحلوں کے درمیان قدرتی تنوع موجود ہے۔ اس شہر کے درمیان تالابوں اور حیاتیاتی تنوع کی کثرت ہے اور ساتھ اس کا صحرا بھی ہے۔ منفرد چٹانیں الگ نظارہ پیش کر رہی ہیں تو دوسری طرف جنگلی حیات رکھنے والا جنگل بھی ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق موسم گرما میں زیادہ نمی والے ساحلی علاقوں کے بارے میں جو کچھ جانا جاتا ہے اس کے برعکس حقل کی آب و ہوا میں ریکارڈ سطح تک کم نمی کی خصوصیت موجود ہے۔ اسی خصوصیت نے اس شہر کو خطے کے نمایاں سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔افق سے حقل کو دیکھنے والے کے لیے وہ ایک بہت ہی خوبصورت پینورامک فن پارہ بن جاتا ہے۔ رہائشی منصوبے اور قدرتی علاقے ایک دلکش منظر بنا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ شہر سمندر کو گلے لگا رہا ہو۔حقل کی خوبصورتی نے پڑھے لکھے افراد کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ شاعرہ اور مصنفہ قسمہ العمرانی نے اپنی ایک کتاب میں اس شہر کو سمندر کا انکیوبیٹر قرار دیا ہے۔یاد رہے تاریخی طور پر حقل مصری حج کے راستے پر ایک سٹیشن تھا۔ اس کے ساحلوں کے قریب کنویں اور سطحی پانی کی کثرت کی وجہ سے العیون کا ذکر عرب کی کتابوں میں ملتا ہے۔ مسافروں اور مستشرقین نے پانی کی فراہمی کے لیے اسے ایک سٹیشن کے طور پربیان کیا ہے۔ العبدری نے سال 689 ہجری میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سمندر پر احسا بہت زیادہ اور میٹھا ہے۔حقل گورنری میں شاہ عبدالعزیز قلعہ ہے جو ایک تاریخی نشان ہے ۔ شاہ عبدالعزیز نے سال 1359 ہجری اور 1940 عیسوی میں اس قلعہ کو تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ سرکاری محکموں کے لیے بنایا گیا یہ قلعہ 900 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔تبوک شہر سے 220 کلومیٹر شمال میں ایک دائرے کے درمیان حقل موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی خلیج عقبہ ہے۔ حقلکا رقبہ تقریبا 327 مربع کلومیٹر ہے۔ حقل گورنریٹ کے کئی مراکز ہیں۔