اللہ کوصرف محض اپنی تعریف اور اپنی عبادت درکار ہوتی تو اس کام کیلئے فرشتے ہی کافی تھے ،انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد تھا کہ وہ ایک ایسا فلاحی معاشرے تشکیل دے جہاں کوئی انسان غیر محفوظ نہ ہو،جہاں نفرت نہ ہو، جہاں کوئی ایک انسان دوسرے کو دھوکہ نہ،ہر کوئی بھائی چارے کے فروغ کو یقینی بنائے، اگر حج کے موقع پر مسلمانوں کی ساری دعائیں قبول ہوجاتیں تو آج تمام مسلمان ممالک ترقی یافتہ ہوتے،آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ پانچ وقت کے نمازیوں کے بار بار حج اور عمرہ کر تے ہوئے رو رو کر مانگی گئیں ساری دعائیں آخر کار قبول کیوں نہیں ہوتی ہیں؟
سورہ اخلاص میں صاف صاف اور آسان الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ اللہ بے نیاز ہے،یعنی اللہ کو محض انسانوں کی فلاح سے غرض ہے،اسی لئے تو قرا?ن مجید میں حقوق العباد پر انتہا درجے کا زور دیا گیا ہے،اس بارے حکم ہے کہ روز قیامت اپنے حقوق کی عدم ادائیگی پر سزا اور معافی دینے کا اختیارصرف اللہ کا ہے جبکہ حقوق العباد کی عدم ادائیگی پراللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہوگی،قرآن پاک اور آخری نبی کی تمام تر تعلیمات میں کہا گیا کہ اعمال کا درآمدار نیتوں پر ہے،یعنی نیت بر مراد، اگر نیت مثبت ہوگی اورعمل بھی مثبت ہوگا تو نتیجہ فلاح ہی نکلے گا،
اگر نیت انتشار اور سازش پر مبنی ہوگی توگناہ بھی اتنا ہی ہوگا،اگردعائیں ہی کافی ہوتیںتو پھر مسلمان ممالک آج کیوں زمین بوس ہیں،
اگر صرف دعائیں مانگنے سے سارے معاملات حل اور مشکلات سے چھٹکارا مل جاتا تو ہر مذہب کا ماننے والا کام کرنے کی بجائے صرف دعائیں کرتا رہتا اور اپنے من کی مراد پا جاتا ،
آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے باشندے غیر ممالک میں رہ کر خود کو زیادہ مطمئن سمجھتے ہیں؟ساری دنیا کے مسلم ممالک کی جانب نظر دوڑائیں آپ کو پتہ چل جائیگا کہ وہ کس قدر ترقی یافتہ اور فلاحی معاشرے ہیں؟اگر مسلمان ممالک کے عوام کو اپنا اپناوطن چھوڑنے کا اختیار دیدیا جائے اورترقی یافتہ ممالک ویزے کھول دیں تو تمام مسلمان ممالک خالی ہوجائیں،یہ ہے اوقات مسلمان ممالک کی،آخر کیا وجہ ہے کہ کافروں اور گوروں کے ملک فلاحی معاشرے ہیں جبکہ مسلمانوں کے ملک اپنے ہی عوام کو لوٹ رہے ہیں؟ہم مسلمانوں نے نہ قرآن کی زبان سیکھی اور نہ اسکا ترجمہ،نہ ہمیں اپنی زبان مکمل آتی ہے نہ انگریزی اور نہ عربی،ہم علم اور عمل سے اتنا ہی دور ہیں سورج کا زمین سے فاصلہ،اگر اللہ میاں کو حج ، عمرہ ، دیگر نفلی عبادتوں میں دہرائے گئے کروڑوں درود شریف،کلمے ہی صرف محبوب ہوتے تو آج اسرائیل فلسطین کو جبکہ کشمیریوں کو قید کرنے پر بھارت ہماری بدعائوں سے بھسم ہوچکے ہو جاتا،میرے خیال میں اللہ میاں کی پسند و ناپسند رنگ و نسل و مذہب سے بالاتر ہے،اللہ میاں تو صرف اس انسان پسند کرتا ہے جو دنیا میں رہ کرمعاشرے کیلئے مفید ثابت ہوگی،
اس وقت پاکستان میںحقیقی ہیروز کا کال پڑا ہوا ہے، جو ہیروموجود ہیں انھیں بھی کسی نہ کسی حوالے سے متنازعہ بنا دیا گیا ہے،میانوالی میں کتنے ارشد ندیم ہوں گے جو وسائل کی کمیابی کی وجہ سے کچھ نہ کرسکے ، رواں اولمپکس کے بعد آج ارشد ندیم پر کروڑوں روپوں کی برسات ہوچکی ہے،اولمپک میں جیتنا ہر نوجوان کا ٹارگٹ ہوتا ہیلیکن جس طرح نے جس طرح ارشد ندیم نے محنت کی اس کا کوئی جواب نہیں ہے،آخر میں یہی کہوں گا کہ ملک و قوم کی ترقی کیلئے عوام کو آواز بلند کرنا پڑ ے گی۔