سابق ڈی جی آئی ایس آئی ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کی گرفتاری بانی پی ٹی آئی عمران خان کے لیے سخت پیغام ہے۔ فوج 9مئی کے حوالے سے ذمہ داروں کے خلاف اپنا گھیرا تنگ کرتی جا رہی ہے۔ جنرل فیض جیسی بااثر اور فوج کے اہم ترین عہدوں پر تعینات رہنے والی شخصیت کی اپنے ہی ادارے (فوج) کے ہاتھوں گرفتاری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بہت سے راز اب طشت ازبام ہونے والے ہیں۔ جن ’’پردہ نشینوں‘‘ کے نام منظر عام پر آ ئیں گے۔ سیاست کی دنیا میں تہلکہ مچا دیں گے۔ کہانی نیا موڑ لے گی اور ایسا رخ اختیار کرے گی کہ سب حیران و ششدر رہ جائیں گے۔
11اگست کو سہ پہر کے وقت تمام نجی ٹی وی چینلز نے معمول کی نشریات روک کر یہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ دی کہ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایس پی آر کی ایک پریس ریلیزبھی سامنے آ گئی جس میں بتایا گیا کہ جنرل فیض کو سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں اسلام آباد کی ایک نجی ہائوسنگ اسکیم سے متعلق شکایات اور الزامات کے حوالے سے ہونے والی تفتیش و انکوائری میں ٹھوس ثبوت ملنے کے بعد حراست میں لیا گیا ہے۔ پریس ریلیز کا دوسرا حصہ اس ’’ خبر‘‘ پر مبنی تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جنرل فیض بعض ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔ آرمی ایکٹ جس کی انہیں اجازت نہیں دیتا تھا۔ آرمی ایکٹ کی دفعات میں صاف درج ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک کوئی فوجی افسر کسی بھی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ لیکن نجی ہائوسنگ اسکیم کی انکوائری کے دوران ایسے شواہد پائے گئے کہ جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی رابطوں میں تھے۔ اس طرح انہوں نے آرمی ایکٹ کی واضح اور کھلی خلاف ورزی کی۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میںیہ بھی بتایا گیا کہ تمام تر ثبوت اور شواہد ملنے کے بعد جنرل فیض کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔
یہ ایک تہلکہ خیز خبر تھی۔ اس ’’بریکنگ نیوز‘‘ کے بعد ہر طرف چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ تبصرے اور تجزیے شروع ہو گئے۔ نجی ٹی وی چینلز نے جنرل فیض کی حراست کے تناظر میں خصوصی ’’ٹاک شو‘‘ کئے۔ تاہم ان شوز میں پی ٹی آئی کے کسی رہنما نے شرکت نہیں کی اور معذرت کر لی۔
جنرل فیض کی گرفتاری کی خبر کو غیر ملکی میڈیا نے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ اس گرفتاری سے یہ عندیہ بھی ملا کہ 9مئی کی کڑیاں اڈیالہ جیل تک پہنچ چکی ہیں۔ جہاں پہلے ہی سختی کر دی گئی تھی۔ اڈیالہ میں سیکورٹی کے اتنے سخت انتظامات کئے گئے ہیں کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ اڈیالہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم اور اْس کے کچھ ماتحت جیل ملازمین کو عمران خان کے لیے پیغام رسانی اور سہولت کاری کے الزام میں ناصرف عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے بلکہ زیر حراست بھی لے لیا گیا ہے۔ فوجی انکوائری ٹیم معطل وزیر حراست ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل اور اُن کے ماتحت ملازمین سے روزانہ کی بنیاد پر تفتیش کر رہی ہے۔ اس تفتیش میں کالز اور واٹس ایپ کے ذریعے بیرونی ملکوں میں بعض شخصیات سے رابطوں کے بھی انکشافات ہوئے ہیں۔ زیر حراست ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کے پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری سے دوستی اور قریبی رابطوں کا بھی پتہ چلا ہے۔ تادمِ تحریر فوج کی تفتیش جاری ہے۔ اگلے چند روز میں کئی اہم انکشافات کی توقع ہے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس وقت وہ فوجی تحویل میں ہیں۔ پیر کی صبح ایک سینئر فوجی افسر کی زیر قیادت 15سے 20جوانوں نے جنرل فیض حمید کی رہائش گاہ کو گھیرے میں لے لیا۔ یہ چھاپہ اس قدر اچانک تھا کہ خود جنرل فیض کو سمجھ نہیں آ سکی کہ اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔ فوج کی چھاپہ مار ٹیم کسی اطلاع کے بغیر جنرل فیض کے گھر میں داخل ہوئی۔ وہ اس وقت بیڈ روم میں محوِ استراحت تھے۔ چھاپہ کی اچانک کارروائی اور اپنے بیڈ روم میں باوردی فوجیوں اور ایک سینئر افسر کو دیکھ کر اُن کے اوسان خطا ہو گئے۔ چھاپہ مار ٹیم کے سربراہ نے جنرل فیض کو بتایا کہ وہ انہیں حراست میں لے رہے ہیں۔ اُن کا اگلا مقام جی ایچ کیو ہو گا۔ اس دوران جنرل فیض کے اہلخانہ بھی صورت حال سے خاصے پریشان نظر آئے۔ انہوں نے جنرل فیض کے بیڈ روم تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن سینئر افسر نے انہیں باہر ہی روک دیا جس کے بعد چھاپہ مار ٹیم جنرل فیض کو فوجی گاڑی میں لے کر جی ایچ کیو روانہ ہو گئی۔
اس کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز نے پورے ملک میں اس خبر کو طشت از بام کر دیا۔ شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی’’ کورٹ آف انکوائری‘‘ہوئی تاکہ ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جا سکے۔اس کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔
فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ فیض حمید کے حوالے سے ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فوج کا یہ ایسا احتسابی عمل ہے جس سے فوج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ تاہم آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں جنرل فیض کے ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت جن خلاف ورزیوں کا ذکر ہے اگرچہ اُس کی تفصیل بیان نہیں کی گئی، تاہم یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ آئی ایس پی آر کا اشارہ واضح طور پر 9مئی کے واقعات کی طرف ہے۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ 9مئی کو گھیرائو جلائو اور آرمی تنصیبات پر حملے جنرل فیض کی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں تھے۔ یہ انہی کی ’’سازش‘‘ کا شاخسانہ ہے۔ ابتدائی تحقیق میں یہ بات ثابت بھی ہو رہی ہے ، اوراس حوالے سے کافی ٹھوس ثبوت اور شواہد مل گئے ہیں۔
کورٹ مارشل کیا ہے؟ جنرل فیض حمید کو کون سی سزائیں دی جا سکتی ہیں؟
کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی افسر کو 35اقسام کے جرائم پر سزا ہو سکتی ہے۔ ان میں ملک دشمنوں سے تعلق، جس ملک میں تعینات ہوں، وہاں کے رہائشیوں اور اُن کی پراپرٹی کے خلاف کسی بھی نوعیت کی سرگرمیاں اور لوٹ مار جیسے جرائم شامل ہیں۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 80کے مطابق کورٹ مارشل کی چار مختلف اقسام ہیں جن میں جنرل کورٹس مارشل ، ڈسٹرکٹ کورٹس مارشل ،فیلڈ جنرل کورٹ مارشل اور سمری کورٹس مارشل شامل ہیں۔
وفاقی حکومت یا آرمی چیف کے حکم پر کسی بھی افسر کے خلاف فیلڈ کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ فیلڈ کورٹ مارشل کے لیے کم از کم تین افسروں کا ہونا لازمی ہے۔ کورٹ مارشل میں سزائوں سے متعلق پاکستان آرمی ایکٹ کے آرٹیکل 60میں تفصیلات درج ہیں۔ مختلف جرائم کے مرتکب افراد کو کورٹ مارشل کے ذریعے مختلف سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ جس میں سنگساری، سزائے موت اور عمر قیدتک کی سزا شامل ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق قید کی سزا 25سال مقرر ہے۔ سو کوڑوں کے علاوہ نوکری سے برخاست کرنے کی بھی سزا اس آرٹیکل میں شامل ہے۔ سزا کے بعد تمام الائونسز بھی ضبط کر لیے جاتے ہیں۔
آرمی ایکٹ میں سزا معافی کا طریقۂ کار بھی دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کورٹ مارشل سے سزا ہونے کے بعد وفاقی حکومت، آرمی چیف یا بریگیڈئر رینک کا افسر آرمی چیف کی اجازت سے مشروط یا غیر مشروط طور سزا کا کچھ حصہ معاف کر سکتا ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید تیسرے لیفٹیننٹ جنرل ہیں جن کا کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔ اس سے قبل ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو 30مئی 2019ء کو کورٹ مارشل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم بعد میں یہ سزا معاف کر دی گئی۔ 29دسمبر 2023ء کو انہیں رہا کر دیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا بھی کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ جس میں اُن کی پنشن اور دیگر مراعات ضبط کر لی گئیں۔
ایک سینئر قانون دان کے مطابق آرمی ایکٹ کا سیکشن 31فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر غضنفر علی کے مطابق آرمی کورٹس میں ملزم کا ٹرائل اس طرح ہوتاہے جس طرح آئینی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ جنرل فیض چونکہ اعلیٰ افسر رہے ہیں اس لیے جنرل فیض کے خلاف ٹرائل ایک تین رکنی آرمی کورٹ کرے گی۔ الزامات ثابت ہو گئے تو جنرل فیض کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔
جنرل فیض کے حوالے سے جاری تفتیش کی روشنی میں مزید تین ریٹائرڈ فوجی افسران کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ غالب گمان یہی ہے کہ بات اب بانی پی ٹی آئی تک جائے گی۔ مزید کچھ اور سیاسی پنڈت بھی آرمی ایکٹ کی لپیٹ میں آتے نظر آ رہے ہیں۔ 9مئی میں بہت سے لوگ وعدہ معاف گواہ بھی بنیں گے۔