ضلع صوابی کئی حوالوں سے قسمت کا دھنی مگر دوسری طرف محرومیوں کے گہرے مضبوط بھنور اور حصار میں مقید آج بھی اس کے غیور اورمکین اپنی بدحالی پر ماتم کناں اپنے ہی علاقے، گھر، گاؤں کے منتخب نمائندوں کے احتساب اور غفلت پر ان کے گریبان پکڑنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ ضلع صوابی کے باسی غیور اور مہمان نوازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ جہاں خان ازم کا تصورتو کیا، جاگیر داری، خان ازم کی غلامی سے مبراہ، خود اختیاری کی بڑی نعمت کیسا تھ سماجی، معاشی، زندگی کا تسلسل اور جوبن پر ہے۔ اس غیور خطے نے صاحبزادہ عبد القیوم خان بانی اسلامیہ کالج پشاور کو جنم تو دوسری طرف افواج پاکستان کے بہادر، سپوت اور قوم کے عظیم ہیرو، محسن کیپٹن شیرخان کا جنم بھومی اور مسکن رھا ھے ۔ ممتاز علماء کرام میں مولانا نور الہادی صاحب مرحوم و مغفورر، مولاناحمد اللہ جان صاحب مرحوم(ڈاگئی باباجی)، مولانامفتی فرید صاحب مرحوم، مولانا شیر اسلم صاحب جیسے جید، ممتاز علماء کرام اس کے ماتھے کا جھومر رہ چکے ہیں۔ ضلع صوابی شہیدوں، غازیوں، معتبر علماء کرام، اعلی فوجی سول افسروں، سائنسدانوں، صحافیوں، مصنفین، شاعروں،ادب اور سیاست کے اعلی درخشاں، روشن ستاروں کی تابانیوں سے بھی منور ہے۔ یہ ان علماء حق اور علماء کرام کے کی شخصیتوں کا ثمر بھی ہے۔ جن کے روحانی انوار سے ضلع صوابی پر پْرنور تا بانیاں برسا کر، روح فر سا مناظر پیش کررہا ہے یہ ان دینی شخصیات علماء حق اور علماء کرام کے علم و عمل کا اثر ہے۔ جنھوں نے ضلع صوابی کو کئی فطری، مصنوعی اعزازات سے نوازا ہے۔ ضلع صوابی ایک طرف ہر لحاظ سے زرخیز اور قدیم مگر کئی حوالوں سے بدبختی کا شکار بھی ہے۔ اگر چہ اہلیان صوابی غیور، اور مہمان نواز ہیں مگر ماضی میں، علم،سیاسی وڑن کی کمی، اور تعلیم کے فقدان کے باعث، اہل صوابی نے نااہل، نالایق، علم و عمل سے عاری بے حس، لادین منتخب نمائندوں کا انتخاب کرکے ایوانوں میں بھیج کر اپنی پسماندگی کو تقویت فراہم اور ضلع صوابی کو معاشی،سیاسی، اور صنعتی لحاظ سے کسمپرسی، معاشی زوال کی طرف دھکیل دیاہیں۔ عصر حاضرمیں ضلع صوابی علماء کرام اور پیشہ ورانہ افراد کے لحاظ سے خود کفالت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ 1946کے بعد 1985 سے لیکر اب تک اہل صوابی نے بے حس، نا معقول تعلیمی اہلیت، یا ان پڑھ، کمزور سیاسی اور معاشی پس منظر کے خاندانوں کے افراد کو پارلیمان پہنچا کراپنی معاشی بدحالی کے پروانے پر دستخط کر کے تنزلی بدحالی کو دعوت دی ہے۔ ضلع صوابی میں گذشتہ چار عشروں سے زائد عرصے پر محیط منتخب نمائندوں نے ضلع صوابی کو ماڈل ضلع نہ بنا سکے ،منتخب نمائندوں میں اکثریت ان پڑھ،، نچلے درجے کی تعلیم،کمزور سیاسی اور معاشی پس منظر رکھنے والے خاندانوں پر مشتمل تھیں۔ راقم اس تحریر کے ذریعے چیلنج کرتا ہے۔ کہ 1985 سے لیکر آج تک ضلع صوابی کے سیاسی، مذھبی جماعتوں کے منتخب ارکان اسمبلی، وزراء، مشیر، وزارت سے پہلے اپنی مالی حالت، خاندانی حیثیت، جائیداد، اثاثے ضلع صوابی کے عوام کے سامنے رکھے۔ اور آج اپنے اثاثے، ضلع صوابی کے غیور عوام کے سامنے آکر اپنی مالی پوزشین، واضح کریں۔ تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
ضلع صوابی کے ان منتخب نمائندگان میں 98فیصد چور، بے ایمان، بدعنوان، اور قوم کی دولت لوٹنے والے نکلیں گے۔ اس خاکسار کو اکثریت کی خاندانی، معاشی، تعلیمی حالت کو نہایت قریب سے وہ دیکھنے کا موقع ملا۔ بیشترعوامی نمائندوں کو راقم الحروف کے خاندانی بزرگان آباؤ اجداد نہایت نزدیک سے جا نتے ہے۔ جنہوں نے ضلع صوابی کی تعمیر و ترقی میں 20 فیصد حصہ بھی نہیں ڈالا۔ مگر اپنی ذاتی تجوریوں کو اربوں روپوں سے بھر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی ? جمعیت علماء اسلام، تحریک انصاف، وغیرہ کے ارکان اسمبلی وزراء کی مشیروں کے ماضی کو ضلع صوابی کے غیور عوام، اور راقم بخوبی جانتے ہیں۔ محض چند برس پہلے جو ممبران، وزراء، مشیر وغیرہ جو پہلے تانگوں، سائیکلوں پر پھرتے تھے آج ان کے پاس، تین کروڑ کی لگڑری ذاتی گاڑیاں ہیں۔یہ بے حس، بے حمیت،سابقہ عوامی نمائندے جواب دیں۔ وزارت سے پہلی والی عام زندگی اہل صوابی کے سامنے رکھے۔ موجودہ اور پہلی والی بینک بیلنس اثاثے ظاہر کریں۔ جمعیت علماء اسلام کے ایک سابق صوبائی وزیر تعلیم اگر چہ ایک بڑے دینی عالم ہے مگر نہایت غریب تھا۔ پہلے ان کے پاس سائیکل بھی نہیں تھی۔ آج ان کے پاس اربوں کے چھپے اثاثے ہیں۔ اس سے ضلع صوابی کے عوام کی اکثریت ناراض ہیں۔حتی اس سے ان کے دینی مدارس کے شاگرد اور بڑے معتبر علما ء کرام دوست بھی ان کے بے حس منفی اور مغرور رویے سے نالاں ہیں، اس مولانا صاحب کی وزارت سے پہلے بہت غریب آدمی تھا۔ ضلع صوابی سے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک صوبائی زکوۃ وزیر نے بھی اربوں کے حرام اثاثے بنائے۔اپنے طالب علمی ہی کے زمانے سے موصوف سکول میں ایک نالائق کام چور، شرارتی، طالب علم کے طور پر مشہورتھا۔ وزارت کے دوران بھی اس نے اپنے آبائی گاؤں میں سینکڑوں کنال پر مشتمل بڑا عالیشان بنگلہ کروڑوں روپے کے مالیت قومی خزانے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی سے حرام دولت پر بنا کر عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے ? گدون سے تعلق رکھنے والے ایک ممبر صوبائی اسمبلی،(تین مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی) اور سابق نگران وزیر امداد با ہمی جو کہ تربیلا ڈیم میں چوکیدار تھا۔ موصوف 33 سال پہلے پلاسٹک کے بوٹوں اور کرائے کے ڈاٹسن میں ممبر بننے سے پہلے گاؤں گاؤں ووٹ مانگنے آتا تھا۔ اس نے اربوں کے حرام اثاثے قومی دولت لوٹ کر بنائے ہیں۔ بعد میں یہ آدمی فرعون ثانی بن گیا تھا، اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔۔ صوبہ سرحد کے ایک سابق وزیر جنگلات کا تعلق اگر چہ اعلی خاندان سے تھا۔ مگر عوامی کاموں کیلئے ضلع صوابی کے سادہ لوح عوام اسے بہت پسند کرتے تھے۔27 سال قبل موصوف صوبہ سرحد کا وزیر جنگلات تھا۔ انہوں نے بھی قومی دولت لوٹ کر اربوں کے اثاثے بنائے۔ ضلع صوابی میں نواں کلی سے تعلق رکھنے والے ایک اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایم این اے۔ جو کہ ان پڑھ جاہل تھا۔ موصوف اب وفات پاچکا ہے۔ (اللہ مغفرت کرے) اس کی اخلاقی شہرت غیر صحت مند تھی۔ جس کے پاس حرام کی دولت تھی، بے حس اور سیاسی وڑن سے عاری غیور اہل صوابی نے انہیں ایم این اے بنا کر قومی اسمبلی بھیجا۔ یہ موصوف مرحوم قانون سازی تو کیا ایک اجڈ، جاھل اور گنوارآدمی تھا۔اس نے ساڑھے تین سال میں صوابی کیلئے قابل ذکر کام تو کیا، اپنے حلقے کے نمائندگی کے حق میں ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ اور اکثر ایوان کے اجلاسوں میں سویا کرتے تھے۔ضلع صوابی کے عوام کا بنیادی مسئلہ خود فریبی کا اعادہ ہے اور تھا۔ اب بھی ضلع صوابی اور ہمارے عوام سیانے نہیںہوئے۔ سب نے ضلع صوابی کو پسماندہ اور محروم رکھا۔ اپنی ذاتی،جائیدا دیں، پلا زیں، بنائے۔ یہ سب عوامی اور قوم کی دولت چھپا کر حرام ،نا جائز، غیر قانونی، غیر آئینی طریقوں سے لوگوں کو دھو کہ دیکر اورجھوٹ بول کر بنائے گئے۔ان کی خاندانی اکثریت مالی، اور ہر لحاظ سے کمزور تھی ? مگر بے حس اہل صوابی نے ان کا احتساب کیا، نہ ان کو گریبانوں سے پکڑ اْن سے اپنا حق مانگا۔یہ نمائندے انتخابات کے دنوں میں اہل صوابی سے جھوٹ بولکر ووٹ لیتے تھے۔ ان بے حمیت نمائندوں میں کسی کے سیاسی کیرئیر یا ریکارڈ پر کوئی اور قابل ذکرپروگرام، پراجیکٹ یا یادگاری کارنامہ ہرگز نہیں ہے، انہوں نے ضلع صوابی کی ترقی کیلئے وہ حق نمائندگی ادا نہیں کیا ہے۔ جس کے اہل صوابی حقدار تھے۔ ہاں البتہ ادنی درجے کے چھوٹے تعمیراتی نہایت کم لاگت سکیمیں بنوا کر جان چھڑائیں۔ اور ٹھیکوں میں من پسند افراد کوکروڑوں روپوں سے نوازا۔ ضلع صوابی کو ماڈل ضلع بنانے سے جان بوجھ کر گریز کیا۔ضلع صوابی کے منتخب نمائندوں میں ایک آدھ کے سوا باقی سب اہل صوابی کے مجرم اور حق ہڑپ کرنے والے ہیں۔