ایک پرانا کالم

یوں تو پاکستان کے بہت سے علاقے اور مقامات، اپنی موسمی خوبصورتی اور قدرتی مناظر کی وجہ سے، اپنی مثال آپ ہیں لیکن چترال کی کیلاش وادی اپنے قدرتی مناظر اور دلفریب موسموں کی سحر انگیزی کی وجہ سے یکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح ان مقامات اور وادیوں کو دیکھنے آتے ہیں ۔کیونکہ ایک طرف تو گنگناتی آبشاریں اور گیت گاتے جھرنے بہار دکھاتے ہیں تو دوسری طرف پھلوں اور پھولوں سے لدھے ہوئے درختوں کے باغات ،سرسبز چراہ گاہیں ،پھولوں سے سجے راستے دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ مزید کیلاش قبیلہ مکینوں کے سال بھر ختم نہ ہونے والے رسوم و رواج اور تہوار سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ 
کیلاش وادی کے بارے مشہور ہے کہ سردیاں گرمیوں سے زیادہ پرکشش ہوتی ہیں کہ سرمئی پہاڑوں کو جب برف کی چادر ڈھانپ لیتی ہے تو الگ ہی نظارہ ہوتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ پھر کیلاش کے باسی کاروبار وغیرہ نہیں کرتے بلکہ کھیل کود اور رسوم و رواج میں وقت گزارتے ہیں ۔ہمیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والی بات درست نہیں لگتی کیونکہ اگر کاروبار بند ہوجاتے ہیں تو سیاح شاپنگ کہاں سے کرتے ہیں؟ اس لیے ایسا نہیں ہوتا البتہ معمولات زندگی میں سست روی آجاتی ہے جسے متحرک رکھنے اور سردی سے مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ وقت جسمانی کھیلوںمیں گزارا جاتا ہے۔کیلاش کے مقبول کھیلوں میں سرمائی کھیل کریک گاڑ (سنو گاف )سب سے اہم ہے کیونکہ اس کھیل میں جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو تین روز کے لیے بادشاہ (مہتر ) منتخب کیا جاتا ہے اور وہ جو بھی حکم دے اسے بہر صورت مانا جاتا ہے ورنہ جرمانہ ہوتا ہے ۔ علامتی بادشاہ علاقے کے افراد کی فلاح و بہبود کے لیے احکامات دیتا ہے۔ جس سے علاقہ مکینوں کو آسانی ملتی ہے بلکہ علامتی بادشاہ بننے کی امید رکھنے والا دوسروں کو یہی باور کرواتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے رکے ہوئے کام کرے گا ۔اب تک سینکڑوں افرادعلامتی بادشاہ (مہتر)کا لقب حاصل کر چکے ہیں ۔تاہم آجکل مہتر صرف ایک دن کے لیے بنایا جاتا ہے ۔رواں برس بھی کیلاش میں سنوگاف کا مقابلہ ہوا جس میںجیتنے والے کپتان کو ہمیشہ کی طرح مہتر بنایا گیا ۔اس تقریب میں وزیراعلیٰ خیبر پخوتنخواہ کے اقلیتی ا مور کے معاون خصوصی وزیر زادہ مہمان خصوصی تھے ،جنہوں نے خود اعلان کیا کہ علاقے کی روایات کا احترام کرتے ہوئے جیتنے والے کپتان کو ایک دن کے لیے مہتر تسلیم کرتے ہیں ۔مہتر یعنی علامتی بادشاہ ایک روز کا ہو یا تین سال کا اس کے اختیارات پورے ہی ہوتے ہیں تبھی تو اکثریتی بادشاہ من مانیاں اور نادانیاں کرتے تاریخی ابواب کو سیاہ کر جاتے ہیں۔افسوس تو یہ ہے کہ اپنی خطائیں اور نا اہلیاں کسی کو نظر نہیں آتیں اور ان افراد پر کیچڑ اچھالنے چل پڑتے ہیں جو صدیوں سے سیسہ پلائی دیوار بنے دشمن کے آگے کھڑے ہیں ۔
مجھے مہتر اسلئے یاد آیا کہ جب سے عمران خان پابند سلاسل ہیں تب سے شوق جنوں میں بیان داغتے رہتے ہیں کہ اگر مجھے آدھی طاقت بھی مل جاتی تو شیر شاہ سوری کو پیچھے چھوڑ دیتا ،میں نام کا وزیراعظم تھا، حکومت کوئی اور کر رہا تھا۔کون سمجھائے کہ دعووں کے ترازو میں تو عظمت نہیں تلتی ،فیتے سے تو کردار کو ناپا نہیں جاتا ۔تاہم جناب کا شکوہ نیا نہیںہے ‘اگر آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق پلٹیں توہر کرسی سے اترنے والا حکمران ایسا ہی شکوہ کرتادکھائی دیتا ہے کہ وہ بے بس ،بے اختیار علامتی حکمران تھا اسلئے ہر خکم بجا لایا پھر بھی سمجھ نہیں آتی کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔۔! یعنی ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘کے مصداق سرا سر نادانیوں ،من مانیوں اور ریشہ دوانیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے کیونکہ جب برسر اقتدار ہوتے ہیں تو سر عام سیاہ و سفید کر تے ہیں جس پر قومی و ملکی سلامتی کے اداروں کے ریمارکس بھی وقعتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں کہ اپنی سمتیں درست کریں اور گڈ گورننس کے لیے کوشش کریں جس پر یہ لوگ انتہائی ڈھٹائی سے مداخلت کاالزام دھر کر عوام کو بہکا کر مست مئے پندار ہوجاتے ہیں ۔یقینا ایسی حالت میں تشویش اور ایکشن ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ پاکستان وہ ملک ہے جس پر دنیا کی نگاہیں ٹکی ہیں ایسے میں نا عاقبت اندیش حکمران سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔۔اب خان صاحب بھی جیل میںبیٹھ کر بھی موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھنا نہیں چاہ رہے جبکہ مسلح افواج کی طرف سے دوٹوک پیغام دیا جارہاہے کہ نو مئی پاکستان کا سیاہ ترین دن ہے جس کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے گی تاکہ کوئی آئندہ ایسی جرات نہ کرے تاوقتیکہ دل سے معافی نہ مانگی جائے لیکن خان صاحب کا سٹریٹ پاور کا نشہ نہیں اتر رہا کیونکہ برموقع درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور انھیں کوئی سمجھاتا بھی نہیں کہ حوصلوں کو اتنا بلند نہیں کرتے کہ اپنی لگائی آگ میں انسان خود جل جائے تو تو جناب معافی ہی نہیں مانگیں گے بلکہ پائوں بھی پکڑیں گے !
باقی مجھے کہنے دیجیے کہ مسئلہ اختیار یا بے اختیاری کا نہیں بلکہ نیتوں کا ہے۔ ہمارے حکمرانوں سے اچھے کیلاش علاقے کے ’’ با اختیار علامتی بادشاہ‘‘ ٹھہرے جو تین روز علاقہ مکینوں کی دیرینہ خواہشات کی تکمیل میں ایسے گزارتے ہیں کہ عورتیں ان پر خشک میوہ جات کی بارش کرتی اور مرد کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران تین چار سال صرف اقتدار کا مزہ لوٹنے ، مستقبل کو محفوظ بنانے اورذاتی مفادات کی جنگ لڑنے میں گزار دیتے ہیں ،عوام جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دیتے ہیں اور جانے پر نوافل ادا کرتے ہیں ۔ بے حسی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ غلط پالیسیوں پر کہتے ہیں ’’تھوڑی سی جو پی لی ہے چوری تو نہیں کی ہے ‘‘ ایوانوں میں بیٹھ کر بھی ایسے قوانین بناتے ہیں جو حصول مفادات میں حائل ہر دیوار کو ہٹا دیں مزیداپنے گھروں ،راستوں اور کاروباروں کو اس طرح سجاتے اور بڑھاتے ہیں کہ کرسی جانے کے بعد بھی ٹھاٹ دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمیں پوری طاقت نہیں ملی ورنہ آسمان سے تارے توڑ لاتے ۔۔سسکتے انسانوں کی خبر نہیں لیتے ،اگر کوئی خبر دے تو اسے باغی گردانتے ہیں ۔۔؟دور مت جائیں مہنگائی مکائو مارچ کے ٹرک پر سوار ہو کر آنیوالے ہمیں خالی خزانے کا لالی پاپ تھما کرخود کرسی کرسی کھیل رہے ہیںاورشاہانہ پروٹوکول میں عوام الناس کی بے بسی کا تماشا دیکھتے ہیں۔ ہمارا وہ حال ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی کہ ایک طرف جان محفوظ نہیں اور دوسری طرف ملکی تاریخ کے ریکارڈ توڑتی مہنگائی،اگر اندھی گولی سے بچ گئے تو معاشی حالات ہمیں مار ڈالیں گے۔طاقتوروں کے احتساب سے عوام کو کیا ملے گا جبکہ طاقتوروں کا احتساب ان کی طاقت میں اضافے کے لیے ہوتا ہے جس کی تاریخ گواہ ہے۔۔اس لئے یاد ررکھیں کہ دنیا میں آج تک جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان کی وجہ ’’روٹی ‘‘ تھی اور اسی روٹی نے انسان کو کبھی جانور بنا دیا اور کبھی اپنوں کا قاتل ۔۔اب ادھر ادھر کی باتوں کا وقت نکل گیا ہے ،عوام سبھی سیاسی بازیگروں سے بد ظن ہوچکے ہیں اگر عوام کو ریلیف دینے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر دور رس حکمت عملیاں اختیار نہ کی گئیں تو موجودہ ڈنگ ٹپائو ،بے اختیار اور بے بس علامتی بادشاہت بھی زیادہ دیر نہیں چلے گی  ۔۔

ای پیپر دی نیشن