سماجی شعور کی جیت

 سابق وزیر اعظم پاکستان ،میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اگست، ستمبر کے بجلی بلوں میں 14روپے کمی کا اعلان کرکے جشن آزادی منانے والی قوم کوایک خوشخبری سنا ہی دی۔قائد مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کافی مدت بعد میڈیا کے سامنے آئے ہیں، یا یوں کہیے کہ کافی مدت بعد حکومت عام آدمی کے لیے راحت کی کوئی خبر لا سکی ہے ۔ اوراس کا اعلان پارٹی قائد سے کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے بجلی بلوں میں کمی کے ساتھ انہیں حکومت سے نکالے جانے کی بات کی،ڈالر نرخ مہنگا ہونے،شرع سود بڑھنے اور ملک میں مہنگائی پر بات کی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ موجودہ مہنگائی کے ذمہ دار ہم نہیں، بلکہ مہنگائی کا ذمہ دار انہوں نے سابق حکومت کو قرار دیا۔ہمارے خیال ہے کہ مختلف شعبوں سے 45 ارب روپے نکال کے صرف اگست ستمبر کے لیے بجلی بلوں میں کمی کا اعلان کرنے سے کہیں بہتر یہ اعلان ہو سکتا تھا کہ تین بار کے سابق وزیر اعظم بجلی ٹیرف میں کمی کا اعلان کرتے اور سارا سال پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے مستقل بجلی نرخ کم سے کم رکھنے کی خوشخبری سناتے۔اب اگر وقتی کمی کے چلتے عوام نے اگست ،ستمبرمیں کچھ وقت زیادہ اے سی ،پنکھے  اور دوسری الیکٹرک اشیا استعمال کرلیں،یعنی زیادہ یونٹ بجلی استعمال کرلیں۔ تو ان کا ٹیرف ریٹ اگلے چھ مہینے کے لیے بڑھ جائے گا ۔یعنی انہیں سردی کے مہینوں میں بھی گرم بل ادا کرنے پڑیں گے۔اور گھروں میں لڑائی مارکٹائی کے واقعات چلتے رہیں گے۔مایوسی کی بجائے ہم اس اعلان کو بارش کا پہلا قطرہ سمجھ لیتے ہیں کہ سیاسی قیادت نے عوامی مشکلات کا احساس کرنا شروع کردیا ہے۔مان لیتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصے سے جس طرح پاکستانی شہری مہنگی بجلی کے حوالے سے شور کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے حکمرانوں نے پہلا قد م اٹھایا ہے ۔لیکن اصل کامیابی یا ملکی معیشت میں استحکام تب آنا شروع ہوگا جب ہمارے سیاسی قائدین آئی پی پیز معائدوں سے قوم کو نجات دلائیں گے۔اب جبکہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ مہنگی بجلی ،ہرماہ بجلی بل میںفیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں’بھتہ‘اور بجلی بل میں طرح طرح کے ٹیکسسز سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ ہمارے محبوب قائدین کے اکاونٹس میں ہی جارہا ہے تو  مناسب یہی ہوگا کہ دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے جو ہو چکا ،جو کما چکے ،اسی پر اکتفا کریں اور اگلے انتخابات میں عوام کی عدالت میں جانے سے پہلے سیاسی راہنما بجلی تقسیم کار کمپنیوںکی لوٹ مار سے عوام کی جان چھڑانے کی کوشش کریں اوراگر ایسا نہ ہوا تو باشعور عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے شدید احتجاج کرے گی۔پاکستانی لوگوں میں سماجی شعور آرہا ہے، حکمران صرف وعدوں،نعروں اور دلاسوں سے عوام کو زیادہ دیر اپنا ہمنوا نہیں رکھ پائیں گے۔ اگر بہتر فیصلے نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں بنیادی مسائل ،مہنگائی اورناانصافی کے خلاف عوام ایک ساتھ باہر نکلنا شروع ہوں گے۔ترقی یافتہ معاشروں میں عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تفریح اور ذہنی و شعوری صلاحیتوں میں اضافے کے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں اور عوام کے حالات و خیالات اور رجحانات کی معلومات کے لیے مختلف سروئے کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی قوم سے ایک گولڈ میڈل کی خوشی سنبھالی نہیں جارہی ہے۔جبکہ امریکہ،چین،برطانیہ اور دوسرے ملکوں کے نوجوان سینکڑوں میڈل جیت کے گھر وں کولوٹے ہیں۔ارشد ندیم پر انعامات کی بارش کے ساتھ ساتھ ملک کے کروڑوں نوجوانوں کے لیے جدید سہولتوں کے حامل کھیلوں کے میدان بنانے پر بھی بات کرنی ہوگی۔
ہمارے قائدین کو سمجھنا ہو گا کہ جہاںبنیادی حقوق کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے، وہیں ان حقوق سے آگاہی بھی ریاست کے ہی ذمے ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی ملک میں مذہبی، فرقہ وارانہ، نسلی، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر کئی تضادات عروج پر ہیں۔ حقیقت کا ادراک اور اعتراف کرنے کے بعد ہی وہ مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ جہاں ریاست کو ماں جیسا بنانے کے لیے آغاز کیا جاسکتا ہے۔ ایسی ریاست جو اپنے تمام شہریوں کو یکساں حقوق و تحفظ فراہم کرتی ہے، ایسے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے جہاں ہر فرد کو برابری اور انفرادی خصوصیت کے ساتھ عزت و توقیر بھری زندگی گذارنے کے بھرپور مواقع حاصل ہوں۔ملک سے تنگ نظری،فرقہ پرستی،عصبیت،نفرت اور جہالت ختم کرنے کے لیے فنون لطیفہ کو عام کرنا پڑے گا۔ہجوم کو ایک قوم بنانے کے لیے علمی،ادبی،ثقافتی تقریبات کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ہر سال زندہ قوم کے نعرے لگانے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بھی گفتگو کرنی ہوگی کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہمارا ملک آج بھی بیرونی قرضوں پر کیوں چل رہا ہے ۔آزادی کے اتنے سالوں بعد بھی ہمارے فیصلے آئی ایم ایف کی مرضی سے کیوں ہو رہے ہیں۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اعلی عہدوں پر نوکری کرنے والے ہمارے محبت وطن لوگ نوکری ختم ہونے کے بعد  اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے دوسرے ملکوں کا انتخاب کیوں کرتے ہیں۔جب تھوڑا غور کریں گے تو سمجھ آجائے گا کہ ہمارے ملکی سسٹم میں وائرس داخل ہو چکا ہے،جو تمام نظام کو متاثر کررہا ہے ۔سسٹم کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے اس وائرس سے جان چھڑانے کے لیے طاقتور اینٹی وائرس سسٹم میں داخل کرنا ہوگا اور وہ طاقت عوامی شعور ہے ۔ ہماری حکومتیں آج اکیسویں صدی میں بھی ،کبھی محرم میں موبائل فون بند کرتی ہے،موٹر سائیکل ڈبل سواری پر پابندی لگاتی ہے ، اورآج کل فائر وال کے نام پر انٹرنیٹ کو سست کردیا گیا ہے ۔پابندیوں سے لوگوں کو کنٹرول کرنے کی بجائے حقوق کی فراہمی ،سماجی شعور اور  رواداری سے عظیم قوم بننے کا سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔بجلی بلوں میں کمی کی شکل میںسماجی شعور کی پہلی جیت قوم کو مبارک ہو،جشن آزادی سب کو مبارک ہو۔پاکستان زندہ باد
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن