محترمہ مریم نواز سے عوامی توقعات

Aug 19, 2024

سکندر خان بلوچ

پاکستان ملٹری اکیڈمی میں نوجوان کیڈٹس کو بحث کے لئے کسی دور میں ایک دلچسب موضوع دیا جاتا تھاجو شاید اب بھی دیا جاتا ہو۔ موضوع یوں ہے:’’ مرد حضرات ناکام ہو چکے ہیںاب اقتدار خواتین کے حوالے کردینا چاہیے۔‘‘ حیران کن بات یہ ہے کہ بہت سے کیڈٹس اس موضوع کے حق میں بولتے تھے۔رضیہ سلطانہ سے لیکر دنیا جہان کی مثالیں دیا کرتے تھے۔میں ذاتی طور پر اِس موضوع پرجب بھی غور کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ خواتین مردوں سے بہتر لیڈرز ہیں۔ہر وہ کام جو مرد لیڈرز اقتدار میں آکر نہیں کر سکتے لیکن جہاں کہیں بھی خواتین اقتدار میں آئیں انہوں نے وہ کام کر دکھائے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ ایماندار اور مضبوط اعصاب کی مالک ثابت ہوئیں۔ آئیں ذرا موجوادہ دور کی تاریخ سے جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کے ابتدئی دور میں محترمہ رعنا لیاقت علی خان صاحبہ پاکستانی سفیر کی حیثیت سے ’’ نیدر لینڈ‘‘ میں سفیر مقرر ہوئیں۔ اْسے Chess کھیلنے کا شوق تھا۔ اْس نے شرط لگا کر ڈچ ملکہ سے گیم کھیلی اور جیت گئی۔اس شرط کے مطابق ایک قلعہ نما شاندار عمارت رعنا لیاقت علی خان کو اس اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے عطا کی گئی۔ اس خاتون کی عظمت اور پاکستان سے وفاداری دیکھیں کہ اس نے یہ عمارت پاکستان کو تحفہ میں دے دی جسے پاکستانی سفارتخانے میں تبدیل کر دیا گیا۔یہ خاتون پیدائشی طور پر ایک برہمن تھی۔صرف اپنے خاوند سے محبت کی وجہ سے پاکستان کے لئے اتنا بڑا کام کر گئی۔ بعد میں ہماری کئی خواتین اس عہدے پرمتمکن رہیں لیکن کسی نے بھی زبانی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔  محترمہ بینظیر صاحبہ دو دفعہ اقتدار میں آئیں۔ مرحومہ بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ ایک اعلیٰ خاندان کی فرد تھیں۔ اس میں بہت کچھ کرنے کی صلاحیتیں تھیں مگر وہ صلاحیتیں بروئے کانہ لا سکیں۔ سیدہ عابدہ حسین نے اپنی سوانح عمری مری (Power Failure) میں اْن پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے۔
اب آئیں اپنے پڑوس بھارت میں۔ اندرا گاندھی دو دفعہ اقتدار میں آئیں۔ اس نے پاکستان کیخلاف وہ کام کر دکھایا جو اْس کے والد تین دفعہ بھارت کے وزیر اعظم رہنے کے باوجود نہ کر سکے۔محترمہ کے دور میں ریلوے کی ہڑتال ہوئی محترمہ نے اْسے کرش کر دیا۔ 1984ء میں سکھ بغاوت ہوئی تو اْس نے سکھ فوج سے ہی وہ بغاوت فرو کی۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ اس سکھ فوج اور سکھ جرنیلوں سے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرایا اور باغی سکھوں کو موت کے گھاٹ اْتار دیا۔گو بعد میں یہی حملہ اْس کی موت کا باعث بنا۔اب بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کو دیکھیں جو چوتھی دفعہ وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔جب بنگلہ دیش آزاد ہوا تھا تو یہ دنیا کا غریب ترین اور پسماندہ ملک تھا اِسے ’’عالمی ردی کی ٹوکری‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ دنیا میں جو بھی چیز ردی اور بیکار ہوتی بنگلہ دیش کو دے دی جاتی۔ اس خاتون کی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے بنگلہ دیش ہم سے ہر لحاظ سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اس وقت بنگلہ دیش کی معیشت پورے جنوبی ایشیاء￿ میں سب سے زیادہ ترقی پذیر معیشت ہے جبکہ ہم نے اپنے ملک کو قرضے میں ڈبودیا ہے۔
ساری دنیا سے قرض لینے کے باوجود ہمارے عظیم لیڈروں نے ملک کو دیوالیہ پن اور تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ یہ ہوتا ہے فرق مخلص اور ایماندار لیڈر شپ اور کرپٹ لیڈر شپ میں۔اتنی خوبیوں کے باوجود محترمہ حسینہ واجد کے آمرانہ رویہّ سے تنگ عوام نے نہ اْسے صرف اقتدار سے محروم کر دیا ہے بلکہ عوام سے ڈر کر ملک بھی چھوڑ چکی ہیں۔ یہ ہوتی ہے عوام کی طاقت۔
اب آئیں اسرائیل کی طرف۔ اسرائیل کی گولڈا میئراسرائیل کی چوتھی وزیر اعظم تھی۔ اس نے اسرائیل کی آزادی میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے اپنے دور ِ وزارت عظمیٰ میں مصر اور شام کے خلاف ’’ یم کپور‘‘ جنگ لڑی۔ ابتدائی شکستوں کے باوجود یہ خاتون جنگ دشمن کے علاقوں میں لے گئی۔ اسی جنگ کی وجہ سے بعد میں بہت سے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔ اس خاتون نے اپنی قوم کو ایک خطاب میں کہا دنیا یہ نہیں دیکھتی کس قوم نے کتنی پر تعیش زندگی گزاری۔ دنیا صرف فاتح اور مفتوح کو یاد رکھتی ہے۔‘‘ اس نے قومی ترقی کے لئے بہت کچھ کیا۔ فوج کے لئے ہتھیاروں کے انبار لگا دئیے اور فوج کو بہت مضبوط کیا۔ اس نے بہت سادہ زندگی گزاری اور گھر کا کام خود کرتی تھی۔ اِسے ’’آئرن لیڈی ‘‘کا خطاب دیا گیا۔
ہماری اگلی خاتون لیڈر برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر ہیں جو چار دفعہ اپنے ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی۔ اس نے اپنے ملک سے بہت دور جنوبی امریکہ کے ملک ارجنٹائن کے خلاف ’’فاکس لینڈ‘‘ نام کی جنگ لڑی اور مدِمخالف کو شکست دی۔ یہ وہ جنگ تھی جس میں برطانیہ کے پرنس چارلس نے بھی حصہ لیا۔ اس کی شاندار معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ان پالیسیوں کو’’ تھیچریزم‘‘ کانام دیا گیا۔
ہماری اگلی خاتون لیڈر ہیں انجیلا مرکل جرمنی کی چانسلر۔ یہ خاتون بھی اتنی عظیم لیڈر تھیں کہ چار دفعہ چانسلر منتخب ہوئیں۔ اتنی سادہ تھیں کہ گھر میں کوئی نوکر نہیں تھا۔ گھر کا ساراکام خود کرتیں۔ خود ہی گاڑی چلا کر دفتر جاتیں۔ 
ہم عوام محترمہ مریم نواز سے لیڈر شپ کے اِسی معیار کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے آپ کو ایسا لیڈر ثابت کرتی ہیں تو اْس کے لئے اس کی راہ میں نہ صرف قوم آنکھیں بچھائے گی بلکہ اعلیٰ اقتدار کے تمام راستے بھی کھل جائیں گے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ محترمہ نے اب تک جو چھوٹے بڑے کام کئے ہیں ان میں عظمت والی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اچھی اور حقیقی جمہوریت کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ جب کوئی لیڈر اقتدار میں آکر غلطی یا کرپشن کرتا ہے تو سب سے پہلے پارٹی خود اْس کا احتساب کرتی ہے اور پھر عوام۔مگر ہماری بد قسمتی کہ یہاں پارٹیوں کا کام اپنے لیڈروں پر نظر رکھنا اور انہیں قومی مخالف کاروائیوں سے روکنا نہیں بلکہ ہر وقت اْس کی تعریف کرنا ہے۔وہ جتنی مرضی آئے کرپشن کریں، عوام پر ظلم کریں، عوام کی زندگی جہنم بنا دیں لیکن اْس کی پارٹی کے لوگ اْس کی ہر وقت تعریفیں کر کر کے اْسے مافوق الفطرت قسم کے انسان کے درجے تک لے جاتے ہیں۔
ہر وقت کی تعریف سے صاحب اقتدار لیڈر میں دو بڑے نقائص پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اْس میں غروراور تکبر اس درجے تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ ’’کو عقلِ کل‘‘ سمجھنا شروع کر دیتا /دیتی ہے۔ دوسرا عوامی مسائل اور زمینی حقائق سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔معذرت سے کہنا پڑتا ہے کہ یہی کچھ محترمہ کیساتھ ہو رہا ہے۔
محترمہ نے عید الاضحی پر صفائی کا بندوبست کیا جس پر عمل لاہور کے علاوہ کہیں نظر نہیں آیا۔ محترمہ کے علاقے میں کچھ مقامات پر عرقِ گلاب بھی پھینکا گیاتو اس کی پارٹی کی مداح نے بیان دیا:’’ محترمہ نے اتنا کام کیا ہے جو پچھلی حکومتوں نے تین سالوں میں نہیں کیا۔انہوں نے پنجاب کی سڑکوں کو عرقِ گلاب سے دھلوادیا۔‘‘ 
اب محترمہ نے ایئر ایمبولینس کے طور پر جہاز خریدا۔ عوام سے تو ڈاکٹر چھوڑ ہسپتال کا چپڑاسی بھی شرافت سے بات نہیں کرتا تو انہیں ایئر ایمبولینس کون دے گا؟اس سے مستفید صرف اشرافیہ ہی ہو سکتی ہے۔
محترمہ کی مداح خاتون نے بیان دیا:’’مریم نواز نے ایسا کام کر دکھایا ہے جو پچھلے چھہتر سالوں میں نہیں ہوا۔‘‘ایسے بیانات ہمیشہ منفی ردِ عمل کا باعث بنتے ہیں۔اب عوام کے سکول کے بچوں کے لئے دودھ اور کھانے کا بندوبست کا اعلان کیا گیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق دودھ پر 22 ارب اور کھانے پر 30سے 35ارب خرچ ہونگے۔ یہ پالیسی تو بہت اچھی ہے لیکن عوام حیران ہیں کہ اتنا پیسہ اوراتنا دودھ کہاں سے آئے گا؟ یہ تو سیدھا کرپشن کا راستہ معلوم ہوتا ہے۔ نجانے کون کون راستے میں اس سے مستفید ہونگے۔اصلی اور خالص دودھ تو دیکھنے کو بھی نہیں ملتا۔
 بہرحال ہماری دعا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی محترمہ کو اللہ وہی عظمت عطا کرے جو مندرجہ بالا خواتین لیڈرز کو عطا ہوئی لیکن گزارش ہے کہ مداح غیر ضروری تعریف اور بیانات سے پرہیز کریں تو بہتر ہوگا۔شکریہ۔اگر کوئی بات ناگوار محسوس ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

مزیدخبریں