مفت کی شراب قاضی حلال سمجھ کر پی لیتا ہوگا۔ لیکن مفت میں ہاتھ آئی کتابیں کون پڑھتا ہے؟ یہ درست ہی سہی لیکن ہم نے مفت میں آئی تینوں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ برادرم عبدالستار عاصم سے فون پر یونہی سرسری سا بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کی کتابوں کا ذکر ہوا تھا۔ عرض کی تھی کہ ان تینوں میں سے میں نے کوئی بھی نہیں پڑھی دیکھی۔ انہوں نے جھٹ سے تینوں کتابیں بھجوا دیں۔ یہ کتاب دوست درویش اپنے دوستوں پر ایسی نوازشات کرتے رہتے ہیں۔
جناب مجیب الرحمان شامی نے صولت رضا کو دنیائے ادب و صحافت کا پنج ستارہ جرنیل قرار دیا ہے۔ آرمی چیف کے کندھوں پر چار ستارے ہوتے ہیں۔ پنج ستارہ جرنیل فیلڈ مارشل کہلواتا ہے۔ شامی صاحب کے انہیں دنیائے ادب وصحافت کا فیلڈ مارشل قرار دینے پر عسکری اور سول حلقوں سے کوئی بھی معترض نہیں ہوا۔ پھر ہمیں کاہے کو اعتراض ہو سکتا ہے، سو ہم اس پر کوئی بھی کمنٹ کئے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ صولت رضا ایم اے صحافت کی ڈگری لینے اور ایک عرصہ ہمہ وقتی صحافتی زندگی بسر کرنے کے بعد فوج کی طرف گئے ہیں۔ موصوف روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘میں بھی کام کرتے رہے۔ شامی صاحب نے صولت رضا کے صحافت کے کوچے سے فوج میں چلے جانے کو، رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی، سے تعبیر کیا ہے تو سچ ہی ہوگا۔ شامی صاحب سے بہتر کون جان سکا ہے کہ جنت کیا ہے؟کدھر ہے اور رندی کسے کہتے ہیں؟ موصوف اوائل عمر میں مولانا مودودی جیسے بڑے لوگوں کے ’’مقدمے وار‘‘ضرور رہے پھر انہوں نے عافیت کی راہ ڈھونڈ نکالی۔
محشر کو لے گئی تھی طبیعت کی سادگی
لیکن بڑے خلوص سے پھر لوٹ آئے ہیں
صولت رضا کی لکھی تین کتابو ں میں سے دو کتابیں بس کتابیں ہیں۔ پڑھ لی گئیں اور بات ختم ہو گئی۔ ایک کتاب ہے ان کے رواداری میں دیئے گئے انٹر ویو پر مشتمل۔ انٹرویو کو کانٹ چھانٹ کے بغیر کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔نثر میں حسن و خوبی کیلئے بڑی تراش خراش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کتاب ان کے کالموں پر مشتمل ہے، غیر فوجی کالم۔ ایسے کالموں کی اک عمر ہوتی ہے، یہ تازہ ہی اچھے لگتے ہیں۔ باسی ہو کر اپنی لذت کھوبیٹھتے ہیں۔ لیکن تیسری کتاب ’’کاکولیات‘‘ واقعی قابل ذکر کتاب ہے۔ سچی بات ہے، ہمیں بہت محرومی کا احساس ہوا کہ ہم نے یہ کتاب پہلے کیوں نہ پڑھی۔ صولت رضا کی یہ ’’پہلوٹھی‘‘کی کتاب ان کے لیفٹین بننے کی مکمل داستان ہے۔ یہ حکایت اتنی لذیذ لکھی گئی ہے کہ بندہ اسے ایک ہی نشت پر پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سو ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا۔
رن کچھ کے سرحدی تنازعہ پر عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے بیرسٹر منظور قادر پیش ہوئے۔ ہندوستان کے وکیل جسٹس سہنا تھے۔ سماعت مکمل ہونے پر دونوں ملکوں کے وفود کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے جسٹس سہنا نے بیرسٹر منظور قادرکے قانونی مہارت کی بہت تعریف کی۔ انہوں نے اس موقعہ پر اپنی تقریر میں کہا:کاش ایسا ممکن ہو کہ وہ فریش لاء گریجوایٹ ہو جائیں اور اس طرح بیرسٹر منظور قادر سے جونیئر کے طور پر نئے سرے سے اپنی وکالت کی زندگی کا آغاز کریں۔ جسٹس سہنا کی طرح جی ہمارا بھی چاہا، زندگی کو لیفٹین کے طور پر دوبارہ شروع کرنے کالیکن ایسی خواہشات کی تکمیل ناممکن سی ہوتی ہے۔ جیسے شوخ و شنگ ساقی فاروقی نے اللہ میاں سے شاعرانہ بے تکلفی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
ہم وہ عاجز ہیں کہ ہر روز دعا مانگتے ہیں
اور اک تم کہ خدائی نہیں دیتے ہم کو
میرے ہاتھوں میں ’’کاکولیات‘‘بتیسویں ایڈیشن میں سے ہے۔ معروف شاعر شہزاد نیئر اسے اردو کی چند انتہائی فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول اس کتاب کے بہت سے غیر قانونی ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ ان کے بقول پاک و ہند کے بیشتر فوجیوں نے اسے پڑھ رکھا ہے۔ ممکن ہی نہیں ایک مختصر سے کالم میں اس کتاب کا پورا تذکرہ۔ بہر حال کتاب میں سے ایک چٹ پٹا مزید لقمہ۔۔۔
’’مارننگ پریڈ کو فال اِن ہوئے۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک آوارہ مچھر’’ہوا خوری‘‘کے لئے ادھر آنکلا۔ پہلے روایتی انداز میں رجز پڑھے اور بیچارے کیڈٹ کو ملکہ کے بْت کی طرح گم سم پاکر آوازے کسنے شروع کر دیئے۔ کیڈت اس اشتعال انگیزی کے باوجود پر امن رہا۔مچھر کا حوصلہ بڑھا اور وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیڈٹ کے رخساروں پر حملہ آور ہوا۔کیڈٹ مچھر سے خوفزدہ نہیں تھا لیکن اصل بات یہ تھی کہ ڈرل انسٹرکٹر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز تھے۔ پریڈ میں ہاتھ پاؤں وغیرہ ہلانا انسٹرکٹر کو دعوت شجاعت دینے کے مترادف ہے اور یہ بات سب کے علم میں تھی کہ دعوت پر مدعو کرنا آسان ہے لیکن انسٹرکٹر کی داد شجاعت وصول کرنا مہنگا سودا ہے لہذا ہم نے پوری کوشش کی کہ دعوت ’’ریزرو‘‘ہی رہے۔ کسی روز مچھر کی اشتعال انگیزی نے ریکارڈ تباہ کر دیااور ہمارا شمار بھی ان کیڈٹوں میں ہونے لگا جو پریڈ کے علاوہ بھی ’’کچھ‘‘کرتے اور سوچتے ہیں۔ یہ ’’کچھ‘‘اور کرنے کا حادثہ مچھر کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ تھاوہ کیڈٹ کے خون سے اپنے لب تر کر رہا تھا تو ہم نے اسے اڑانے کا جدید طریقہ اختیا ر کرلیا۔ سب سے پہلے پیٹ بھر کر سانس لی، اپنے ہونٹوں کو باریک سوراخ کی شکل دی۔ اس سوراخ کو اندازاً مچھر پر’’فکس‘‘ کیا اور پوری قوت سے سانس نکال دی۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ طوفان مچھر کو اڑا دے گا اور ہم اطمینان کے ساتھ پریڈ پر دھیان دے سکیں گے۔ مچھر شاید زیادہ ہی مدہوش تھا اور یہ وار ناکام ثابت ہوا۔ہم نے دوبارہ سانس کے ذریعے حملہ کیا۔اس مرتبہ ہوا کی رفتار اور مقدار پہلے سے زیادہ رکھی۔ یہی احتیاط لے ڈوبی۔ جب راکٹ کی مانند ہوا منہ سے نکلی، مچھر تو اڑ گیا، لیکن پریڈ کی صفوں میں سیٹی کی گونج پھیل گئی۔ ہماری سیٹی کمان سے نکلے تیر کی طرح تھی جسے اب دنیا کی کوئی طاقت خاموش نہیں کر سکتی تھی۔ اس گناہ کبیرہ کی آواز جب انسٹرکٹر کے کانوں میں ٹکرائی تو اس کا رد عمل ایسا ہولناک تھا کہ ہر کیڈٹ کے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں۔’’فال آؤٹ‘‘کا کاشن سٹاف نے پوری طرح ادا نہیں تھا کہ میں پریڈ سے نکل آیا اور سٹاف کے قدرتی غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے خود بخود زمین پر اردو کے حساب کا بڑا سا 8 بن گیا۔ سٹاف نے فوراً پیش قدمی کی۔ 8 کا ہندسہ کبھی دور سے 81 اور کبھی 18 نظر آنے لگا۔ ’’آپ نے سیٹی بجائی ہے، سٹاف نے پوچھا‘‘ ’’سٹاف! دراصل مچھر اڑایا ہے‘‘۔ ’’پریڈ میں مچھر کی طرف دھیان کیوں گیا؟‘‘ ’’تنگ کر رہا تھا مجبوری تھی‘‘۔’’ٹھیک ہے۔ شاؤٹ یور نمبر‘‘ Shout Your Number۔ سٹاف نمبر نوٹ کر کے پلاٹون کے قریب ہو گئے۔ 8 اکیلا رہ گیا۔ تاہم اس عرصہ میں پلاٹوں نے جی بھر کے مچھر مارے، مکھیاں اڑائیں اور خوب کھجلی کی‘‘۔
٭…٭…٭