سوال اور مکالمہ ! ایک سنجیدہ بحث

سقراط (399 قبل مسیح) قدیم ایتھنز میں پیدا ہونے والا علمیات و اخلاقیات کا عظیم معلم گذرا جس کا شمار تاریخ کے عظیم ترین فلسفیوں میں  ہوتا ہے۔ سقراط کے فلسفے کا بنیادی مرکز سوال کے ذریعے سچائی تک پہنچنے پر مبنی تھا۔اْس کاخیال تھا کہ سوال کے ذریعے اِنسان اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتا ہے اور یہی اعتراف علم کی تلاش کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ سقراط کا یہ قول کہ ’’میں کچھ نہیں جانتا، لیکن میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ اِ س امر کا غماز ہے کہ علم کی جستجو کے لیے اپنی پیشگی لاعلمی کا اعتراف ازحد ضروری ہے۔سوال اور مکا لمہ کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے اکثر احباب کا خیال ہے کہ جدید دور کے فکری تناظر میں مکالمہ اور سوال کی ہیت بدل چکی ہے۔ چونکہ سوال اور مکالمہ بیانیے کے نقطہ نظر سے مختلف ذرائع ابلاغ کے حوالے ہوجا تا ہے اس لیے نہ تو سچائی تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے اور نہ ہی سوال اپنی لاعلمی کے اعتراف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اب مکالمہ صرف کسی نظریاتییا علمی اختلاف رکھنے والے شخص یا گروہ کو نیچا دِکھانے کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے اور سوال صرف کسی منفی پہلو کی نشاندہی کرتا دکھائی دیتا ہے جس میں اکثر جواب دینے والے کی سبکی درکار ہوتی ہے۔ علمی اور فکری ذمہ داریوں کے حوالے سے قائم اداروں میں بہرحال سوال اور مکالمے کی اہمیت کا ادراک اشد ضروری ہے۔
سقراط کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اْس نے خود کوئی تحریری کام نہیں چھوڑا بلکہ اْس کا علم، فلسفہ اور خیال اْسکے ہم عصروں اور شاگردوں میں سوال اور مکالمے کی صورت منتقل ہوا اور مغربی فلسفیانہ زاویے کے طور پر پھیلا۔ سقراط کی فلسفے کا مرکز اْس کا تحقیقاتی طریقہ تھاجسے سقراطی مکالمہ کہا جاتا ہے۔ سقراطی مکالمہ میں سوال ایک منظم عمل ہے جس کا مقصد تنقیدی سوچ کو اْبھارنا اور مباحث کے ذریعے مسئلے یا خیال کی بنیادی سچائی تک پہنچنا ہے۔ سقراط کے خیال میں سوال پوچھنے کا عمل علم و دانش کی تلاش میں بنیاد ہوتا ہے۔ سقراطی طریقہ کی بنیاد مکالمہ ہے جس میں سقراط نے اپنی محافل میں شریک ہو نے والے علم کے متلاشی لوگوں کو سوالات کے ذریعے شامل کیا تاکہ اْن کے مفروضے کو پرکھا جا سکے اور کسی بھی مسئلے اور خیال کے بارے میں اْن کی تفہیم کو بہتر بنایا جا سکے۔ سقراط کے ہاں علم یا سچائی کے حصول میں سوال کی کلیدی اہمیت ہے۔ مکالمہ اور مباحث اْس وقت موثر ہوں گے جب شرکاء معنی خیز سوال کے ذریعے پیچیدہ مفروضے کو واضح کرکے مختلف نقطہ نظر کو اْجاگر کریں گے۔ سوال تفہیم کا را ستہ کھولتا ہے۔سقراط کی محافل میں سوال بنیادی مفروضات اور تعصبات کو بھی بے نقاب کرتے تھے اور اْنکی اصلاح کرتے تھے۔ سقراط نے علم، اخلاق اور انصاف جیسے بنیادی مسائل کو دریافت کرنے کے لیے سوال کا استعمال کیا۔علمی میدان میں اِس طریقہ کار سے تحقیق، پالیسی اور عمل کے پہلوئوں کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اقدار، اْصول اور نتائج کے معیارکو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
سقراطی فلسفہ کے دو اہم جزو مکالمہ اورسوال کے تناظر میں پاکستان میں جاری بیانیہ کی جنگ ایک اہم کیس سٹڈی ہے جس میں مذہب، سیاست، ثقافت، اور تاریخ جیسے عوامل کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ بیانیہ قومی اور سماجی سطح پرقوی شناخت، مذہبی روا داری ، سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور سماجی انصاف کے گرد گھومتا ہے پاکستان میں سوال اور مکالمہ کو چند چیلنجز درپیش ہیں۔ مکالمہ اہل علم و رائے کو اپنے خیالات کو تنقیدی سوچ کی روشنی میں جانچنے کی ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان میں یونیورسٹیز اور تھنک ٹینکس کی صورت میں مختلف سطحوں پر مکالمے کے مواقع موجود ہیں لیکن عمومی طور پر مکالمہ محدود ہے اور اشرافیہ اِس مکالمے سے فائدہ نہیں اْٹھاتی۔ مختلف مسائل جیسے کہ سیاسی عدم استحکام، مذہبی عدم رواداری، اقتصادی ترقی، صحت اور تعلیم کے میدان میں اصلاحات جیسے مسائل پر تنقیدی مکالمے کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہیوجہ ہے کہ اہل علم و رائے کی جانب سے اِن مسائل کا حل سامنے نہیں آرہا۔ پاکستان کا بیانیہ مذہبی ، سماجی اور ثقافتی نظریات پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ مکالمہ کی صورت لوگ اپنی مذہبییا ثقافتی ہم آہنگی جیسے موضوع پرغور و فکر کرسکتے ہیں اور نتیجے کے طور پر معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ مل سکتا ہے اور اختلاف ِ رائے کی گنجائش پیدا کرنے کی روایت مضبوط ہوسکتی ہے۔ ایسے ہی مختلف سیاسی نظریات کے درمیان مکالمہ اور سوال کے ذریعے قومی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور متنوع نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی روایت کو فروغ دیا جا سکتا ہے جو سیاسی استحکام اور قومی ہم آہنگی کے لئے اہم ہے۔
پاکستان کے تناظر میں سوال اور مکالمہ کو کچھ اْصولوں کے پیرائے میں دیکھنا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر سوال اْٹھانے سے پہلے سوال کی اخلاقیات طے کرنی ضروری ہے۔ سوال کرنے والا جس طرح کا علمی جواب کی توقع کرتا ہے ایسے ہی اْس کے لیے اپنے سوال میں حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔ جس طرح جواب کی اخلاقیات ہو سکتی ہے کہ وہ سچ پر مبنی ہو ایسے ہی سوال کی بھی اخلاقیات ہوسکتی ہے کہ وہ بھی حقائق پر مبنی ہو اور سچ تک پہنچنے کی کوشش ہو۔ماضی قریب میں پاکستان میںذرائع ابلاغ کے مختلف پلیٹ فارمز پر اْٹھائے جانے والے بے بنیاد سوالوں کی وجہ سے پاکستان کا ایک منفی تاثر اْبھرا حالانکہ بہت سے سوال ایسے ہیں جو نہ صرف بے بنیاد تھے بلکہ حقائق سے بھی کوسوں دْور تھے۔ غیر محسوس طریقے سے کچھ سوال اور کچھ الفاظ فکری مکالمے میں اِس تواتر سے دہرائے جاتے ہیں کہ وہ منفی  بیانیہ بن کر سامنے آجاتا ہے جسے پاکستان مخالف ذرائع ابلاغ ہوا دیتے ہیں۔ مکالمہ کی اہمیت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ سقراطی مکالمہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا شاید قدیم دور میں تھا۔ اِس وقت ضرورت ہے کہ علمی اور فکری سطح پر پاکستان کو درپیش مسائل پر سنجیدہ مکالمہ کا آغاز کیا جائے اور حکومت اِس میں فریق ہو۔ یہ مکالمہ حکومتی سرپرستی اور نگرانی میں ہو تاکہ مکالمہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دانش کا فائدہ حکومت کو پالیسی سازی کی صورت میں ہو۔ بڑے مسائل کے حل کے لیے سوال اور مکالمہ کا فروغ اور علم ودانش سے رجوع کیا جانا از حد ضروری ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن