وزیراعظم محمد شہباز شریف جلد ہی آئندہ پانچ سال کے لیے معاشی منصوبے کا اعلان کریں گے۔ ان کی زیر صدارت پانچ سالہ معاشی پلان کے اہم اہداف پر معاشی ٹیم کے ساتھ اہم اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے تمام وزارتوں کو دیے گئے اہداف کے لیے فائنل ڈرافٹ تیار کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ اس اقدام کے ساتھ ہی پانچ سالہ معاشی پلان پر عمل درآمد شروع کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ معاشی پلان پر سختی سے عمل درآمد ملکی معیشت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وزیراعظم نے ٹیم کو ہدایت کی کہ معاشی پلان میں اہم اہداف طے کرنے سے ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سمیت معاشی ٹیم کے وزراء نے وزیراعظم کو متعلقہ اہداف پر بریفنگ دی۔ وزارت خزانہ، وزارت تجارت اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے معاشی پروگرام بارے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ اجلاس کے دوران ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا عمل جلد مکمل کرنے پر بھی اتفاق ہوا۔
مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح بڑھانا، برآمدات، ایف بی آر اہداف، نجکاری پلان، مالیاتی خسارہ کنٹرول، پرائمری بیلنس سرپلس، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی)، سرمایہ کاری اور اوورسیز اور زراعت پلان اہداف میں شامل ہیں جبکہ انرجی ریفارمز، اخراجات میں کٹوتی، فارمرز کریڈٹ لینڈنگ، ایف بی آر ڈیجیٹائزیشن بھی پلان کا حصہ ہے۔ پانچ سالہ پلان کے تحت جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد اور مہنگائی کو 7 سے 8 فیصد تک محدود کرنے کا ارادہ ہے جبکہ مالیاتی خسارہ رواں مالی سال جی ڈی پی کا 6 فیصد، آئندہ سال 4.7 فیصد تک محدود کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسی طرح، مالیاتی خسارہ سال 2026-27ء میں 3.6 فیصد اور مالی سال 2028ء میں مزید کم کرنے کا پلان ہے اور برآمدات کو پانچ برسوں میں دوگنی کر کے 60 ارب ڈالر سے زائد بڑھانے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔ برآمدات میں ہر سال تقریباً 5 سے 6 ارب ڈالر اضافے کے لیے پلان تیار کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے فارمرز کریڈٹ لینڈنگ بڑھانے کے لیے کمرشل بنکوں کے ساتھ مل کر پلان مرتب کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
اگر پانچ سالہ معاشی منصوبہ واقعی بنا لیا جاتا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا ہے تو یہ شہباز شریف کے اہم کارناموں میں شمار ہوگا۔ اس سے پہلے گزشتہ برسوں میں شہباز شریف بار بار میثاقِ معیشت کی تجویز دیتے رہے ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کے عدم اتفاق کی وجہ سے عمل کے سانچے میں نہیں ڈھل سکا۔ پانچ سالہ معاشی منصوبہ ہو یا میثاقِ معیشت، ان دونوں کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے کہ پاکستانی معیشت کی منجدھار میں پھنسی ہوئی ناؤ کی ان مسائل سے جان چھڑائی جائے جن کی وجہ سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ ان دونوں منصوبوں کی تجاویز شہباز شریف کی طرف سے سامنے آنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معیشت کے بارے میں واقعی بہت سنجیدہ ہیں اور اس معاملے کی حساسیت سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اسی آگاہی کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ پانچ سالہ معاشی منصوبہ ترتیب دے رہے ہیں۔
پاکستان نے اپنے ابتدائی برسوں میں پانچ سالہ اقتصادی منصوبوں کی مدد سے جو معاشی فوائد حاصل کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے یہ منصوبے کس حد تک فائدہ مند تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ ملکوں نے انھیں رہنما بنا کر اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے کام شروع کیا اور آج بھی وہ دنیا میں مستحکم معیشت شمار کیے جاتے ہیں۔ ہمارا پہلا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ 1955ء نافذ کیا گیا تھا جو منصوبہ بندی بورڈ کے سربراہ زاہد حسین کی رہنمائی میں تیار کیا گیا تھا۔ زاہد حسین سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پہلے گورنر بھی تھے اور آزادی سے پہلے وہ حیدر آباد دکن کے وزیر مالیات کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ پہلے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے میں انھوں نے جن زرعی اصلاحات کی تجویز دی تھی اگر ان پر عمل درآمد کر لیا جاتا تو آج پاکستان کی معاشی اور سماجی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔
خیر، یکے بعد دیگر اقتصادی منصوبے ترتیب دیے جاتے رہے اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے دورِ حکومت میں 2013ء سے 2018ء تک گیارھویں پانچ سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا اور حکومت نے ایک دستاویز کے ذریعے اس کے خد و خال بھی واضح کردیے گئے تھے لیکن غیر مستحکم سیاسی حالات کی وجہ سے اس پر عمل درآمد اس طرح ممکن نہ ہو پایا جیسے کہ اسے ہونا چاہیے تھا۔ اب ایک بار پھر نون لیگ نے پانچ سالہ منصوبہ پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اس منصوبے کے لیے صرف مختلف وزارتوں کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام صوبوں اور جماعتوں کے قائدین سے بھی مشاورت کریں اور اگر اپنے سیاسی مخالفین سے بھی انھیں کچھ بہتر تجاویز ملتی ہیں تو انھیں اس منصوبے کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ یہ کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کا معاملہ ہے، لہٰذا اس سلسلے میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر سب کو یک جہت ہونا چاہیے۔