فلسطین کے مسلمانوں نے اپنے خون سے تاریخ رقم کی ہے، یہ کہنا لکھنا اور اس پر بات کرنا آسان ہے لیکن جو اس تکلیف سے گذر رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے لیکن اتنی تباہی کے بعد بھی، اتنی شہادتوں کے بعد بھی، اتنی تکالیف کے بعد بھی فلسطین کے غیور اور بہادر عوام آج بھی اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ وہ گردنیں کٹوا رہے ہیں، لاشیں اٹھا رہے، گولیاں کھا رہے ہیں، تباہی برداشت کر رہے ہیں لیکن ان کے جذبہ ایمانی میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اللہ ان کے جذبے کو سلامت رکھے لیکن جب آپ فلسطین میں مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہیں تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہماری ذمہ داری کیا ہے امت مسلمہ کی ذمہ داری کیا ہے، کیا ہمیں اس حوالے سے سوال نہیں ہو گا۔ کیا فلسطین کے معاملے میں ہم صرف زبانی جمع خرچ کے لیے ہی رہ گئے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے تین سو روز مکمل ہوئے ہیں۔ اس موقع پر جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید ترین نقصان پہنچا ہے اور اس مد میں تینتیس ارب ڈالر کے براہ راست نقصانات ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں ایک سو اٹھانوے سرکاری عمارتیں، ایک سو سترہ تعلیمی ادارے، چھ سو دس مساجد،تین گرجا گھر، ایک لاکھ پچاس ہزار رہائشی یونٹ، دو سو چھ آثار قدیمہ، چونتیس کھیلوں کے مراکز، تین ہزار کلومیٹر سے زائد بجلی کی ترسیل کا نظام اور سات سو پانی کے کنویں تباہ ہوئے ییں۔
ان تین سو دنوں میں اسرائیلی حملوں میں غزہ کے چونتیس ہسپتالوں اور اڑسٹھ مراکز صحت کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ غیر فعال ہوئے ہیں۔ کیا یہ اعداد و شمار دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ کیا عالمی طاقتوں کو کچھ خیال ہے کہ فلسطین میں کیسے انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے، بنیادی ڈھانچہ تباہ کیا جا رہا ہے اس کا حساب کون دے گا۔ پہلے تباہ کریں پھر تعمیر و بحالی کے لیے امداد کریں دنیا کو سکوں کرنے دیں کیوں مسلمانوں کی زندگی خراب کر رہے ہیں پھر کہتے ہیں ہم متعصب نہیں یہ تعصب نہیں تو کیا ہے۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن کہتے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی کی ڈیل کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکا، اسرائیل، قطر اور مصر کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نئے دور کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ بہت زیادہ پر امید ہیں کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات طے پا جائیں گے، غزہ میں جنگ بندی سمجھوتے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ کو اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بدلے میں جوابی حملے سے امن عمل متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن جس حملے نے امن عمل کو تباہ کرنے کی بنیاد رکھی ہے اس کے ذمہ داران کا بھی کچھ کرنا ہے یا نہیں۔
چاہے فلسطین ہو یا شام، وہاں کے لوگ مسلسل ایمان کی ناقابل یقین سطح کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امت کی حالت کو دیکھتے ہوئے، پوری دنیا کے لوگ اپنے اپنے ایمان پر سوال اٹھاتے ہیں، پھر بھی سنگین حالات میں، جب یہ کسی اور کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، شام کے لوگ اپنے ایمان میں سکون پاتے ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام اور اس کے لوگوں کی اتنی تعریف کی ہے: "اگر شام کے لوگ فاسد ہو جائیں تو تم میں کوئی بھلائی نہیں، لیکن میری امت کا ایک گروہ غالب رہے گا، ان کو نیچا دکھانے والوں سے نقصان نہیں پہنچے گا، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کتاب اور اسلام کا ستون اس سے مراد وہ چیز ہے جو ایک سہارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں رسول ؐکے اس قول سے ملتا جلتا ہے: ’’مومنوں کا قلب شام ہے‘‘۔ اللہ شام کی بابرکت سر زمین پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور اس کے لوگوں کو کافروں پر فتح عطا فرمائے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے لوگوں کے امتیازی کردار کو یہ بتا کر نمایاں کیا کہ وہ قیامت تک اللہ کے احکام کی تعمیل کرتے رہیں گے اور یہ کہ فاتح گروہ آخر وقت تک ان کے درمیان رہے گا۔ یہ ایک جاری معاملے کی بات کر رہا ہے جو ان کے ساتھ رہے گا، کہ وہ بے شمار اور مضبوط ہوں گے۔ یہ وضاحت مسلم دنیا میں اہل شام کے علاوہ کسی پر لاگو نہیں ہوتی، اس سرزمین میں علم اور ایمان آج بھی موجود ہے، اور جو اس سرزمین میں ایمان کی حمایت کے لیے لڑے گا وہ غالب آئے گا اور اسے خدا کی مدد حاصل ہوگی۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب میں سو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ کتاب کا ستون میرے سر کے نیچے سے اٹھایا جا رہا ہے، میں نے سوچا کہ اسے اٹھا لیا جا رہا ہے، اس لیے میں اپنی نظروں سے اس کے پیچھے گیا، اور اسے شام تک لے جایا گیا۔ بے شک ایمان، جب فتنے آئیں گے، شام میں ہوں گے۔" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: کتاب اور اسلام کا ستون اس سے مراد وہ چیز ہے جو ایک سہارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہاں وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں رسول ؐکے اس قول سے ملتا جلتا ہے: ’’مومنوں کا قلب شام ہے‘‘۔ اللہ شام کی بابرکت سرزمین پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور اس کے لوگوں کو کافروں پر فتح عطا فرمائے۔
اللہ ہمیں اس مشکل وقت میں حق کے ساتھ کھڑا ہونے کی توفیق عطاء فرمائے، ہمیں حق کا ساتھ دینے، حق پر قائم رہنے کی ہمت اور طاقت عطاء فرمائے۔ آمین
فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم اور امت مسلمہ کی ذمہ داری!!!!
Aug 19, 2024