تحریر :فیصل ادریس بٹ
قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر نے آئینی و سیاسی بحران کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تنہائی کی شکار حکومت کو بلاول کے جارحانہ ودبنگ خطاب سے ملنے والی آکسیجن نے نئی زندگی فراہم کی ہے بلاول نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے نانا کے عدالتی قتل اور موجودہ حالات کی زمہ داری جن پر ڈالی تھی وہ بلاول کے خطاب کی وجہ سے تاحال دباؤ میں ہیں اور امید ہے کہ اب یہ بحران شدت اختیار نہیں کرے گاچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پاکستان کے ممتاز سیاسی خاندان کے واحد چشم وچراغ اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ہمیشہ اہمیت کے حامل رہے ہیں انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرچکے تھے اگر چہ ان کی پیدائش کے بعد بے نظیر بھٹو شہید وزیراعظم بنیں اور وہ ماں کی گود سے ہی سیاست سیکھتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ پرامن ترقی پسند خوشحال جمہوری پاکستان کے پرزور حامی ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے فرزند جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں زوالفقا ر علی بھٹو کی نسبت سے ان کا مقام پاکستان کی سیاست میں بلند ہوا تو بے نظیر اور آصف زرداری کی وجہ سے وہ سیاست کے آسمان پر براجمان ہیں جبکہ وزیر خارجہ کے طور پر ان کی خدمات تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی جلاوطنی اور والدین سے دور تعلیم حاصل کرنے والے بلاول بھٹو نے جمہوریت اور وطن عزیز کیلئے اپنا خون دینے والے خاندان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان اور سندھ کی ترقی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ بے مثال ہے بلاول اپنے نام کی طرح لاثانی اور والدہ و نانا کی طرح کرشماتی صلاحیتوں کے حامل ہیں پارٹی کی کمان سنبھالتے ہی انہوں نے اپنی والدہ کو یاد کرتے ہوئے جب یہ دوہرایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو اس کی گونج پاکستان میں طاقت کے ایوانوں اور دنیا بھر میں سنی گئی اور یہ محسو س ہوا کہ شہید بی بی زندہ ہے ان الفاظ سے سیاست کا آغاز کرکے انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہے اور کوئی آمر اب اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے گا کیونکہ زوالفقا ر علی بھٹو ہوں یا بے نظیر شہید ہوں ان کی پہچان ہی مزاحمت ہے اپنے خون میں مزاحمت کی موجودگی کا اظہار کرتے ہی بلاول بھٹو نے روٹی کپڑا اورمکان کے نعرے کو زندہ کردیا۔ بطور رکن قومی اسمبلی انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کیلئے سلیکٹڈ کی اصطلاح متعارف کراکے اپنی منفرد پہچان کی بنیاد رکھی پاکستان کے پہلے کم عمر ترین وزیر خارجہ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو ان کی صلاحیتیں اس وقت کھل کر سامنے آئیں اور کم عمر ترین وزیر خارجہ کا اعزاز حاصل کرتے ہی انہوں نے پاک چین تعلقات کو نئی بلندیوں ہر لیجانے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ چین پر کوئی بھی حملہ پاکستان پر حملہ تصور ہوگا اسکے بعد انہوں نے ماسکو کا دورہ کرکے بھی عالمی سیاست میں ہلچل پیدا کردی جمہوریت کی بقا اورسالمیت کیلئے صدارتی نظام کی کھل کر مخالفت کی میڈیا کی آزادی ہو یا سنسر شپ کا معاملہ ہو بلاول بھٹو ہمیشہ آذادی اظہار رائے کے حق میں ڈٹ کرکھڑے رہے ہیں خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے بھی انہوں نے ہمیشہ بلند آواز اپنا موقف ان کی حمایت میں ہی دیا ہے کشمیر ایشو پر بلاول نے متعدد بار کہا کہ میں کشمیر واپس لوں گا اور یہ پاکستان کا حصہ ہے اپنے جرات مندانہ موقف کی وجہ سے بلاول ہمیشہ عالمی میڈیا کی شہ سر خیوں میں رہے ہیں جب امریکی صدر کو بائیڈن نے کیلیفورنیا میں ڈیموکریٹک پارٹی کی فنڈنگ کی تقریب میں پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین جوہری ممالک میں سے ایک قرار دیا تو بلاول بھٹو نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو وزارت خارجہ طلب کیا اور وضاحت طلب کرنے کیساتھ مذکورہ بیان پر باز پرس کی سلالہ واقع پر بلاول نے بارک اوبامہ سے ملاقات کی اور نیٹو کے فضائی حملے پر معافی کا مطالبہ کرکے جہاں یہ ثابت کیا کہ وہ بے نظیر شہید جو یہ جانتی تھیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے پھر بھی وطن واپس آئیں اور بہادری سے ملک قوم اور جمہوریت کیلیئے جام شہادت نوش کیا اسی طرح صبر و استقامت کی علامت اور مفاہمت کے سلطان آصف علی زرداری کی طرح جیل کاٹنے اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے اور اپنی اہلیہ کے جنازے پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے کا بیٹا ہے وہیں انہوں نے دنیا کو بھی اپنی جرات و بہادری سے حیران کردیا۔ بلاول بھٹو زرداری سندھ حکومت میں اپنی ان پٹ شامل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سندھ میں قائم ہسپتالوں اور وہاں پر علاج معالجے کی عالمی لیول کی سہولیات کی مثالیں پاکستان بھر میں دی جاتی ہیں اپنے ددھیال و ننھیال کی طرح انہیں بھی سندھ دھرتی سے محبت ہے اسلئے وہ اسکی تعمیر و ترقی کیلئے دن رات کوشاں رہتے ہیں تھر میں پانی کی سپلائی ہو یا کوئلے سے بجلی بنانے کے کارخانے لگانا ہو وہ سندھ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں صحت تعلیم اور شہریوں کو جدید سہولیات کی فراہمی ان کا مشن ہے پاکستان کو بلاول جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور یہی پاکستان کا حقیقی روشن مستقبل ہیں۔