ملتان (ظفراقبال سے )زندگی دکھوں کی آماجگاہ ہے۔ دکھوں اور مصیبتوں کے بعد ہمیشہ انسان کو سکھ نصیب ہوتے ہیں اور اسی سکھ اور راحت کی آس میں ہم نے بھی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ ان خیالات کا اظہار ضلع فیروز پور کے گاؤں موگہ سے اپنے خاندان سمیت ہجرت کرنے والے 112 سالہ تحریک پاکستان کے مجاہد محمد سردار ولد متھے قوم راجپوت نے "ہم نے پاکستان بنتے دیکھا" کیلئے نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اپنی زبانی کچھ یوں بیان کیا کہ میں تقسیم کے وقت ہندوستان کی فوج میں ملازم تھا۔ میرے والد بھی ریٹائرڈ فوجی تھے اور اس وقت کھیتی باڑی سے منسلک تھے۔ اس دوران میری ڈیوٹی قیدیوں کی دیکھ بھال اور نگرانی پر لگی ہوئی تھی۔ جونہی تقسیم کا اعلان ہوا تو میری حالت دیدنی تھی اور میں فرط مسرت پر اپنی ڈیوٹی اور قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا ‘۔ گھر پہنچا تو والد نے گھر کے باہر حویلی کو تالا لگا کر پہرہ لگایا ہوا تھا ہمارا پورا گاؤں مسلم آبادی پر مشتمل تھا جہاں پر نوجوان رات کو پہرہ دیتے۔ ابا جی نے پاکستان ہجرت کے وقت کچھ چنے‘ چاول اور گڑ اپنے تھیلے میں ڈالے جبکہ ایک پانی کا مشکیزہ میری کمر پر لاد دیا۔ راستہ میں جو بھی مشکیزہ سے پانی پیتا دعائیں دیتا۔ شاید انہی دعاؤں کا سبب ہی تھا کہ ہم سات بھائیوں میں سے اکیلا میں ہی زندہ بچا، باقی 6 بھائیوں کو سکھوں اور ہندؤں نے دوران سفر قافلہ پر حملہ کر کے شہید کردیا۔ جبکہ اسی دوران میرے والدین‘ دادا جی اور تایا جی کو بھی بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ میں قافلہ کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے کچھ دور کماد کے کھیت میں روپوش ہو گیا۔ رات کو بھوکا پیاسا سفر کے لئے پھر نکلا تو ایک بار پھر حملہ کردیا گیا‘ مسلمانوں کو بڑی بے رحمی سے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر پھینک دیا گیا۔ نعشوں کے انبار لگ گئے اور میں ان نعشوں کے نیچے لیٹ گیا۔ خون سے اس قدر لت پت تھا کہ حملہ آور شاید سمجھے کہ میں بھی شہید ہو چکا ہوں۔ جونہی شور شرابا اور آوازیں آنا بند ہوئیں تو میں خوف کے عالم میں اٹھنے لگا تو آواز آئی کہ مجھے بھی لے چلو۔ وہ ایک جوان 18 سالہ لڑکی تھی جسے میں نے نعشوں کے درمیان سے نکالا ہم دونوں 7/8 دن پیدل چلتے رہے۔ سکھوں کو دیکھ کر چھپ جاتے۔ ایک بار پھر سکھوں نے حملہ کیا تو ہم دونوں ایک جھاڑی میں چھپ گئے۔ کچھ لمحے گزرے ہی ہونگے کہ ایک سکھ ہاتھوں میں تلوار لئے مسلمان نوجوان لڑکی کو اٹھا لایا اور اسی جھاڑی کے نزدیک زیادتی کرنے لگا۔ ایک غیرت مند مسلمان بھلا کب ایسا برداشت کر سکتا ہے میں نے پل جھپکتے ہی سکھ سے تلوار چھین کر اسی تلوار سے کاری ضرب لگا کر اس کا سرتن سے جدا کردیا اس لمحے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے اندر کوئی غیبی طاقت سرایت کر آئی ہے۔ میں نے ا? پاک کا شکر ادا کیا کہ اس مصیبت کے سفر میں اللہ پاک نے مجھ سے ایک اچھا کام لے لیا۔ گویا 2 نوجوان لڑکیاں اور ہم 3 افراد بارڈرگنڈا سنگھ سے بذریعہ ٹرین پتوکی پہنچے۔ جہاں پر ایک سرکاری سکول میں رہائش اختیار کر لی۔ جہاں پر میری اپنے سگے بھتیجے سے بھی ملاقات ہو گئی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ٹاٹے پور کے موضع کرتال پور ملتان آ گئے اور قیام پاکستان سے لیکر استحکام پاکستان کیلئے ہمیشہ سے دعا گو ہیں، اللہ کریم کلمہ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت خدا داد کی حفاظت اور معاشی ترقی سے ہم کنار فرمائے۔