سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے صاحبزادے میاں نجم الثاقب کے آڈیو لیکس کیس کے معاملے پر وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواستوںپر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے معطل کردیئے اور عدالت کو مزید کارروائی کرنے سے روک دیا۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری کاروائی پر حکم امتناع جاری کردیا۔عدالت نے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواستیں سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کرکے جواب طلب کر لیا۔ بینچ نے عدالتی آفس کو کیس کی پیپر بکس تیار کرنے کاحکم دیا ہے جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جن سے بات کی جا رہی ہو آڈیو انہوں نے لیک کی ہو، کیا اس پہلو کو دیکھا گیا ہے؟ آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔سب سے اہم دونوں فون ہیں جن کی گفتگو ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سچ جانچنے اورسچ تک پہنچنے کے لئے کوئی ملک میں تیار ہی نہیں ہورہا، کمیشن بن رہا تھا اس کو سپریم کورٹ سے کام کرنے سے رکوادیا، اس کے بعد آج تک سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت مقررنہیں ہوئی، سپیکر قومی اسمبلی نے سچ جانچنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی اس کوبھی کام سے روک دیا گیا،پھر کیسے سچ جانیں گے۔ سموک سکرین بنادیں پھراس کے اندر سب کچھ کریں۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے وفاقی حکومت اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 جون2024 کے فیصلے کے خلاف دائر 4درخواستوں پر سماعت کی۔وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے پیش ہوکردلائل دیئے جبکہ پی ٹی اے کے وکیل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے۔سماعت کے آغاز پر جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ نے یہ تعین کیا ہے کہ آڈیو کون ریکارڈ کر رہا ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا، تفتیش جاری ہے۔چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس کااستعمال کرنا شروع کردیا ہے، پہلی درخواست ختم ہو گئی تودوسری درخواست میں آرڈرز جاری کرنا شروع کردیئے، لوگوں کو فریق بنائے بغیر ہی احکامات جاری کئے جارہے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اب وہاں کارروائی کاکیا ہوا۔چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ قومی اسمبلی رولز2007 کے رول 253کے تحت اگرقومی اسمبلی تحلیل ہوجائے تو زیرالتواتمام بزنس ختم ہوجائے گا۔چوہدری عامررحمان نے کہا کہ چارقوانین کے تحت ٹیلی فون ٹیپنگ کوپہلے ہی غیر قانونی قراردیا گیا ۔ چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ 6جون2023کو اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں توشہ خانہ کیس میں گھڑیوں کی خریدوفروخت کے معاملہ پر ایف آئی آر درج ہوئی، ایف آئی آر گھڑیاں خریدنے والی دکان کے مالک کی جانب سے درج کروائی گئی، ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ گھڑیاں خریدنے کے حوالہ سے بنائی گئی رسیدیں جعلی ہیں، اس کے بعد بشریٰ بی بی اور ذولفی بخاری کی آڈیو لیکس آئیں۔ چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ پولیس نے بشریٰ بی بی اورذلفی بخاری کو شامل تفتیش ہونے کاکہا، انہوں نے شامل تفتیش ہو کر کہا کہ آڈیو لیکس جعلی ہیںاور ساتھ ہی نوٹس کواسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کردیا۔ چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ ہم نے اپنی آواز کے نمونے دے دیں تاکہ ان کاتجزیہ پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری سے کروایاجاسکے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سچ جانچنے اورسچ تک پہنچنے کے لئے کوئی ملک میں تیار ہی نہیں ہورہا، کمیشن بن رہا تھا اس کو سپریم کورٹ سے کام کرنے سے رکوادیا، اس کے بعد آج تک سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت مقررنہیں ہوئی، سپیکر قومی اسمبلی نے سچ جانچنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی اس کوبھی کام سے روک دیا گیا،پھر کیسے سچ جانیں گے۔ چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ 26مئی 2023کو سپریم کورٹ میںمعاملہ سماعت کے لئے مقررہوااس کے بعد کیس سماعت کے لئے مقررہی نہیں ہوا، سپریم کورٹ کے سامنے یہ دلیل ہے کہ یہ جرم ہے اس لئے اس میں کمشین بنانے کی کیا ضرورت ہے۔چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ کسی کو فریق بنائے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ احکامات جاری کررہی ہے۔جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ نجم الثاقب کی آڈیولیک ہے، سچ جانچنے کی اجازت نہیں دے رہے، سپریم کورٹ کو کام کرنے نہیں دے رہے اورہائی کورٹ میں معاملہ آگے لے کرچلتے رہے ہیں۔ چوہدری عامر رحمان نے کہا کہ دونوں کہہ رہے ہیں کہ آڈیو لیکس جعلی ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے جن سے بات کی جا رہی ہو آڈیو انہوں نے لیک کی ہو، کیا اس پہلو کو دیکھا گیا ہے؟ آج کل تو ہر موبائل میں ریکارڈنگ سسٹم موجود ہے۔اس پر چوہدری عامررحمان نے کہا کہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ میرے پارٹنر نے لیک نہیں کی۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کیا کسی نے تجزیے کہ لئے اپنا فون پیش کیا۔اس پر چوہدری عامررحمان نے کہا کہ کسی نے پیش نہیں کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سب سے اہم دونوں فون ہیں جن کی گفتگو ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے کہا کہ سموک سکرین بنادیں پھراس کے اندر سب کچھ کریں۔ اس دوران پی ٹی اے کے وکیل نے پیش ہوکرایڈیشنل اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے۔ چوہدری عامر رحمان نے عدالت نے استدعا کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے 29مئی2024اور25جون2024کے فیصلوں کی معطلی ضروری ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیلیں سماعت کیلئے منظور کر لیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو مزید کارروائی سے روک دیا۔ عدالت نے بشریٰ بی بی اور نجم الثاقب کو نوٹس جاری کردیئے۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالتی کارروائی حتمی نہیں ہوئی، ہائی کورٹ نے آرٹیکل 199 کے اختیارِ سماعت سے تجاوز کیا، سپریم کورٹ کے 2 عدالتی فیصلوں میں اصول طے شدہ ہے، ہائی کورٹ از خود نوٹس نہیں لی سکتی۔حکمنامے کے مطابق عدالت کو بتایا گیا 31 مئی کی ہائی کورٹ کی سماعت میں جو 5 سوالات طے کئے گئے وہ درخواست گزاروں کا کیس ہی نہیں تھا، عدالت کو بتایا گیا کہ ہائی کورٹ تفتیش نہیں کر سکتی۔ایڈیشنل اٹارنی نے اس دوران بتایا کہ 29 مئی2024 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے میں اتھارٹیز کو فون ٹیپنگ سے روکا گیا، ہائی کورٹ کے حکمنامے کے سبب ہم کوئی کائونٹرانٹیلیجنس نہیں کرسکتے، کسی دہشت گرد کو بھی اب نہیں پکڑ پا رہے، آئی ایس آئی، آئی بی کو فون ٹیپنگ اور سی ڈی آر سے بھی روکا گیا۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ 29 مئی 2024 کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نامے کا جائزہ لیا گیا، اس حکم نامے کو اگلی عدالتی کارروائی میں توسیع نہیں دی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکمنامے کو توسیع ہی نہیں دی، ریکارڈ پر کچھ نہیں، اس لئے حکم نامہ معطل نہیں کر رہے۔عدالت نے وفاقی حکومت کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 جون2024 کا حکمنامہ معطل کردیا۔ عدالت نے تاحکم ثانی اسلام آباد ہائی کورٹ کو مزید کارروائی سے بھی روک دیا ہے۔سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی گئی ۔