انجانے گناہ

Dec 19, 2010

پروفیسر سید اسراربخاری
روزمرہ کی زندگی میں کتنے ہی ایسے اعمال ہیں جو ہم سے سرزد ہوتے ہیں، مگر ہم اُن کا نوٹس ہی نہیں لیتے کہ وہ گناہ کے زمرے میں آتے ہیں، بلکہ بعض اوقات تو ہم انہیں کارِ ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے آنے پر اُس سے خوب گپ شپ لگانا اور اُس کے جاتے ہی اُس کی برائیاں بیان کرتے ہیں، مگر یہ تک نہیں سوچتے کہ وہ ہمارا بھائی ہے جو مردہ ہے اور ہم اُس کا گوشت کھا رہے ہیں خواتین آپس میں بیٹھی جب باتوں میں مصروف ہوتی ہیں تو کتنے ہی جھوٹ فراٹے سے بول جاتی ہیں اور پھر اچانک کہہ اٹھتی اوہو نماز کا وقت ہو گیا ہے، اور وضو میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ ایک گناہ اور بھی ہے جس کا ہم نے کبھی احساس تک نہیں کیا اُس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ مرد ہوں یا عورت اگر نامحرم ہوں تو اپنی نگاہیں نیچی کر لیں، مگر ہم جب عورت کو گزرتے دیکھتے ہیں تو چاہے کھمبے سے ٹکرا جائیں دو آنکھیں چار کر کے اُس کو سر تا پا دیکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، غیر عورت کی آواز پر ہمارے کان کھڑے ہو جاتے ہیں، اور ہم موقع کے چور ہیں، اگر موقع ملے تو خدا جانے کہاں تک جا پہنچیں۔ یہ ہے وہ گناہ جس کا ناپاک سرمہ ہم اپنی آنکھوں میں لگاتے رہتے ہیں، ہم گناہ کو ایک دوسرے پر مسلط بھی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک شخص جو دس آدمیوں میں بیٹھا اذان پر اُٹھ کر مسجد کا رخ کرتا ہے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں بجائے اس کے کہ اُس کے نقشِ قدم پر چلیں، اور آگے چلیں تو ذہنی گناہ کا آغاز ہوتا ہے۔ خیالات میں گندگی اور پراگندگی کو اس فراوانی سے لاتے ہیں جیسے رب کائنات کو نعوذباللہ نظر ہی نہیں آتا، اور گناہ کا ایک منبع ٹی وی بھی ہے، جسے دیکھنا اور ہر طرح کے مناظر سے لطف اندوز ہونا گویا کوئی برائی ہی نہیں انٹرنیٹ جو معلومات کا خزینہ ہے، مگر ہمارے لئے گناہوں کا گنجینہ ہے، اس کے ذریعے چیٹنگ اور نیوڈ سائٹس دیکھنا تو اب معمول بنتا جا رہا ہے، حالانکہ یہی انٹرنیٹ ہمیں کسی بھی مفید علمی فیلڈ کا عالم بنا سکتا ہے، حالانکہ ہم میں ایسے انجانے گناہ کرنے والے، حج بھی کرتے ہیں نماز بھی پڑھتے ہیں مگر نماز ہمارے کردار پر اثرانداز کیوں نہیں ہوتی اس لئے کہ ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کہ نماز برائی اور قابلِ نفرت کاموں سے روکتی ہے، اور اگر ایسا نہیں کرتی تو ہمیں اپنی نمازوں کو چیک کر لینا چاہئے کہ وہ کہیں محض اُٹھک بیٹھک تو نہیں، نماز دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہونے کا نام ہے، اور اس کی بنیاد ہماری اچھی نیت پر کھڑی ہے، یہ تو اللہ کی عنایت ہے کہ وہ ہمارے ذہنی و تخیلاتی گناہوں پر گرفت نہیں کرتا، مگر انہی کے ذریعے تو ہم عملی گناہ کے گڑھے میں گر جاتے ہیں، کیا ہم میں سے کسی نے کبھی اپنے لباس پر غور کیا ہے، بالخصوص خواتین نے، کہ ننگی بانہوں اور کسے ہوئے لباس سے دیکھتی نگاہوں میں جبری گناہ سما جاتے ہیں، کہئے ان کی ذمہ داری بروز حشر کس پر پڑے گی، اب ہم گناہ کے فلسفے کی طرف جاتے ہیں، ذہنی انتشار گناہ کی جڑ ہے، جس کی ضد انسان کا ضمیر ہے، ذہنی پراگندگی ضمیر کو مار تو نہیں سکتی سُلا دیتی ہے، شاید ہم من حیث القوم اس سے گزر رہے ہیں، دانائے سبل سیدالرسلؐ سے کسی نے پوچھا گناہ کیا ہے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جو نماز نہیں پڑھتا، جھوٹ بولتا ہے وغیرہ، بلکہ انہوں نے کہا ’’الذی ماحاک فی صدرک‘‘ (جو تیرے دل و دماغ میں کھٹکے وہی گناہ ہے) کیا آج تک کسی عالم دین نے منبرِ رسولؐ پر کھڑے ہو کر یہ کہا ہے، کہ ایکٹروں، ایکٹرسوں، ناچیوں، ناچوں، ہاتھ دیکھنے والوں، جادوگروں، نجومیوں کی کمائی حرام ہے، اور ان کے پاس جانے والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں، آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ ہم جاننے والے کو سلام کرتے ہیں اور نہ جاننے والے کو سلام نہیں کرتے آخر سائل کو دیکھ کر افسر کو افسری اور امیر کو امیری کیوں یاد آ جاتی ہے۔ ہم اُن کو کیوں دیتے ہیں جو کمانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو کہتے ہیں: ’’می آدم اعتراف گناہ بنودہ را‘‘ (مجھے اُس گناہ کا بھی اعتراف ہے جو میں نے کیا نہیں)
مزیدخبریں