لاہور (خبر نگار خصوصی) تحرےک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ ممتاز صحافی اور نظرےہ پاکستان ٹرسٹ کے چےئرمےن مجےد نظامی نے کہا ہے بلوچستان مےں آج کل وہی الارمنگ صورت حال ہے جو مشرقی پاکستان مےں تھی۔ ہمےں بنگلہ دےش کے ساتھ مل کر اےک کنفےڈرےشن بنانا چاہےے۔ بنگلہ دےش مےں لاکھوں محصورےن پاکستانی نہاےت بدتر زندگی بسر کررہے ہےں۔ انہےں پاکستان لاکر مےاں چنوں مےں غلام حےدر وائےں شہےد کے ان محصورےن کے لےے بنائے گئے کوارٹروں مےں بساےا جائے۔ وہ اےوانِ کارکنانِ تحرےک پاکستان لاہور مےں سانحہ سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے منعقدہ فکری نشست بعنوان ”سقوط ڈھاکہ۔ واقعات کا تجزےہ اور مستقبل کے چےنلجز“ سے صدارتی خطاب کرر ہے تھے جس کا اہتمام نظرےہ پاکستان ٹرسٹ نے تحرےک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کےا تھا۔ نشست سے کرنل(ر)جمشےد احمد ترےن‘ پروفےسر ڈاکٹر رفےق احمد‘ سےنےٹر اےس اےم ظفر‘ سابق پرےس منسٹر برائے بنگلہ دےش محمد حسےن ملک‘ برےگےڈئےر (ر) حامد سعےد اختر‘ مےجر جنرل (ر) راحت لطےف‘ برےگےڈئےر (ر) ظفر اقبال چودھری‘ سابق آئی جی سےد سلیمان خالق‘ رﺅف طاہر‘ کرنل (ر) فرخ‘ کرنل (ر) اکرام اللہ خان‘ علامہ پروفےسر محمد مظفر مرزا اور ادےب جاودانی نے بھی خطاب کےا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز قاری امجد علی کی تلاوت قرآن پاک‘ مہتاب حسن کی نعت نبوی اور قومی ترانے سے ہوا۔ مےزبانی کے فرائض نظرےہ پاکستان ٹرسٹ کے سےکرٹری شاہد رشےد نے سرانجام دےئے۔ مجےد نظامی نے کہا ےہ حقےقت ہے کہ بنگلہ دےش بنا اور پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے لےکن اس کی کچھ وجوہات ہےں۔ جس ملک کے دوحصے ہوں اور ان مےں اےک ہزار مےل کا فاصلہ ہو تو ان کا متحد رہنا ممکن نہےں تھا۔ قائداعظمؒزندہ رہتے تو پاکستان متحد رہتا۔ جب شےخ مجےب الرحمان رہا ہوکر آئے اور ملک غلام جےلانی کے ہاں ٹھہرے تو مےں ان سے ملا۔ مےں نے ان سے کہا اب الےکشن ہونے والے ہےں۔ مشرقی پاکستان مےں آپ کی اکثرےت ہے اور عوامی لےگ کے مقابلے مےں کوئی کھڑا نہےں ہو گا۔ آپ براہ کرام آئےں اور وزےراعظم بنےں۔ شےخ مجےب الرحمان نے مجھے کہا مجےد بھائی! آپ ےقےن کرےں ےہ جرنےل مجھے حکومت نہےں کرنے دےں گے۔ مےں نے ان سے کہا ہم دس سال اےوب خان کی مخالفت کرتے رہے ہےں۔ ہم آپ کی بھرپور حماےت کرےں گے۔ شےخ مجےب الرحمان نے کہا مجھے مغربی پاکستان سے صرف اےک امےد وار حامد سرفراز ملا ہے۔ مےں نے کہا آپ حکومت بنائےں تو سب آپ کے ساتھ ہونگے لےکن شےخ مجےب الرحمان نے مےری بات نہ مانی وہ گوےا ےہاں سے جانے سے پہلے بنگلہ دےش بنانے پر تےار تھے۔ بھٹو بھی اس کام مےں اتنے ہی ملوث ہےں جتنے ےحےیٰ خان جو نورجہاں کے گانے سن سن کے مدہوش ہو چکے تھے۔ حمود الرحمان کمےشن رپورٹ کو جاری کےا جائے اور ان تےنوں ذمے داروں کے خلاف مقدمے چلائے جائےں۔ بنگالےوں کو ان کے حقوق دے کر مشرقی پاکستان کو ٹوٹنے سے بچاےا جا سکتا تھا۔ بنگالےوں کا کہنا تھا پاکستان مےں جرنےل شاہی ہے اس لےے ےہاں ہماری حکومت کا آنا مشکل ہے۔ جس قسم کی جمہورےت بنگالی چاہتے تھے ہم اےسی جمہورےت نہےں دے سکتے تھے۔ جمہورےت کو آمرےت کا تڑکا لگا رہتا ہے۔ چےن نے 500 پاکستانی طالب علموں کو وظائف دےنے کا اعلان کےا ہے تو ہمےں چاہئے ہم اےک ہزار بنگالےوں کو وظائف دےنے کا اعلان کرےں۔ اللہ کرے کسی دن بےگم خالدہ ضےاءدوبارہ برسر اقتدار آجائے تو ہم اےک بار پھر قرےب آسکتے ہےں کےونکہ وہ پاکستان کی حامی ہےں۔ پاکستان مےں بھٹو کے داماد کی حکومت ہے جنہےں ان باتوں کا کوئی ادراک نہےں۔ ہمےں چاہئے ہم انہےں کہےں کہ اےک ملک نہ سہی ہم اےک کنفےڈرےشن بنالےں۔ بنگلہ دےش آزاد ہے اور وہ بھارت کے اثر مےں نہےں۔ ہمےں بنگلہ دےش کو فوجی امداد دےنی چاہئے۔ ہمارے مابےن تجارت اور وفود کے باہمی تبادلے ہونے چاہئے۔ بنگلہ دےش مےں لاکھوں پاکستانی ناگفتہ بہ حالت مےں رہ رہے ہےں۔ مےں نے ان کے کےمپوں کا معائنہ کےا ہے۔ ان کے لےے وزےر اعلیٰ غلام حےدر وائےں شہےد نے مےاں چنوں مےں اےک ہزار کوارٹر بنوائے تھے لےکن وفاقی حکومت نے محصورےن کو وطن واپس لانے کی اجازت دےنے سے انکار کر دےا کہ اےک صوبائی وزےر اعلیٰ ےہ کام نہےں کر سکتا۔ ان محصورےن کو پاکستان مےں لاکر بساےا جائے۔ تحرےک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چےئرمےن کرنل (ر) جمشےد احمد ترےن نے کہا مےں 1971ءکی جنگ مےں نہ صرف شامل تھا بلکہ بھارت مےں جنگی قےدی بھی رہا۔ بنگالےوں کا ےہ کہنا تھا ہم پاکستان سے علےحدگی نہےں بلکہ اپنے حقوق چاہتے ہےں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد شےخ مجےب الرحمان ڈھاکہ آئے اور اُنہوں نے فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا مجھے انتخابات مےں اکثرےت حاصل ہوئی تھی لےکن ہمےں اقتدار نہ سونپا گےا۔ مشرقی پاکستان مےں جب کوئی بھارتی جہاز گرتا تھا تو بنگالی نعرے لگاتے تھے۔ وہ پاکستان سے علےحدگی نہےں چاہتے تھے بلکہ وہ صرف ہماری محبت کے بھوکے تھے۔ نظرےہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چےئرمےن پروفےسر ڈاکٹر رفےق احمد نے کہا بنگلہ دےش کے قےام پر اندرا گاندھی نے کہا تھا ہم نے آج دو قومی نظرےئے کو خلےج بنگال مےں ڈبو دےا۔ جب مرار جی ڈےسائی بھارت کے وزےراعظم بنے تو اُنہوں نے کہا اندرا گاندھی نے بنگلہ دےش بنا کر بےوقوفی کی اب ہمارے لےے دو پاکستان بن گئے ہےں۔ پاکستان اور بنگلہ دےش کے ہمےشہ نہاےت خوشگوار تعلقات قائم رہے۔ امرےکہ بھارت کو مستقبل مےں اےشےا کی بڑی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ سارک تنظےم کا بنےادی مقصد رکن ممالک مےں برابری کی سطح پر تعلقات کا قےام ہے جو بھارت کو منظور نہےں۔ بھارت کا بنگلہ دےش سے بھی اےسا ہی روےہ ہے جےسا پاکستان کے متعلق۔ بنگلہ دےش کی معےشت تےزی سے ترقی کررہی ہے۔ بعض شعبوں مےں بنگلہ دےش نے پاکستان سے زےادہ ترقی کی ہے۔ بےرون ملک مقےم 16 لاکھ بنگالےوں نے تقرےباً 10 ارب ڈالر کی رقوم وطن بھجوائےں۔ بنگلہ دےش کی برآمدات خاصی بہتر ہےں اور بھارت نے اس سلسلے مےں اسے خاص سہولےات دے رکھی ہےںلےکن بھارت جب چاہے بنگلہ دےش کی برآمدات بند کر کے اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بنگلہ دےش اور بھارت کے درمےان درےاﺅں کے پانی کا تنازع بھی ہے۔ اگر ہم نے بنگلہ دےش سے بہتر تعلقات قائم نہ کےے تو اسے بھی انہی مسائل کا سامنا رہے گا جس کا شکار پاکستان ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دےش کی نوجوان نسلوں کو اےک دوسرے کے قرےب لاےا جائے اور اس سلسلے مےں بنگالےوں کو سکالرشپ پر تعلےم فراہم کرنا ضروری ہے۔ پاکستان مےں بنگالی سفےر کا پاکستان کے بارے مےں نرم روےہ ہے اور ان کی خواہش ہے دونوں ممالک کے درمےان تجارت بڑھائی جائے۔ دونوں ممالک کے ٹی وی چےنل اےک دوسرے کے ہاں دکھائے جانے چاہئےں۔ بنگلہ دےش مےں بجلی اور گےس کی خاصی کمی ہے۔ ہمےں چاہئے کہ اےران پاکستان بھارت گےس پائپ لائن کو بنگلہ دےش تک بڑھاےا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے مختلف چےمبرز بنگلہ دےش مےں سرماےہ کاری کر رہے ہےں۔ ممتاز دانشور و قانون دان سےنےٹر اےس اےم ظفر نے کہا پاکستان اےک عوامی تحرےک اور جمہورےت کی بنےاد پر معرضِ وجود مےں آےا۔ ہم نے اگر جمہورےت کو آگے بڑھاےا ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی علےحدہ نہ ہوتا۔ جب ہم 1947ءمےں آزاد ہوئے تو سب سے پہلی اور خوفناک غلطی ےہ ہوئی ہم 9 برس تک کوئی آئےن نہ بناسکے۔ آخر 1956ءمےں اےک آئےن بناےا گےا لےکن اس مےں بھی غےر جمہوری ٹےڑھی بنےاد رکھ دی گئی ےعنی زےادہ آبادی والے مشرقی پاکستان کو کم آبادی والے مغربی پاکستان کے برابر درجہ دے دےا۔ وفاق کی مضبوطی کے لےے سےنٹ کا ہونا ضروری ہوتا ہے لےکن 1956ءکے آئےن مےں سےنٹ نہےں بناےا گےا جو براہ راست صوبوں کی نمائندگی نہ کر سکا۔ ہمارے قائدےن نے اےک اور غلطی کرتے ہوئے اےک حاضر سروس فوجی جرنےل کو عوامی حکومت کی کابےنہ مےں شرےک کر دےا جنہوں نے بالآخر 1958ءمےں اقتدار پر قبضہ کر کے مارشل لاءنافذ کر دےا۔ 1947ءمےں جب پاکستان بنا تو اس کے دونوں حصوں مےں اےک ہزار مےل کا فاصلہ تھا اور درمےان مےں بھارت کا ساےہ تھا۔ قائداعظمؒ کا اس بارے مےں ذہن واضح تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمےان خوشگوار تعلقات قائم ہوں گے اسی وجہ سے اُنہوں نے بمبئی مےں جائےداد بھی خرےدی تھی۔ بھارتی فوجی جارحےت کی وجہ سے ہم 1947ءسے سکےورٹی سٹےٹ بنے رہے اور جمہورےت کی ترقی کے لےے ضروری اقدامات نہ کر سکے۔ مشرقی پاکستان کی حفاظت کی ذمے داری مغربی پاکستان پر عائد کی گئی کہ بھارت نے مشرقی پاکستان پر حملہ کےا تو مغربی پاکستان بھارت پر حملہ کرے گا۔ 1965ءکی جنگ مےں ہماری فوج نے اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کا برابری کی سطح پر مقابلہ کےا۔ 1965ءکے بعد جب مےں مشرقی پاکستان گےا تو وہاں ہر اےک کی زباں پر ےہی الفاظ تھے ہم مغربی پاکستان پر اعتبار نہےں کرتے کےونکہ اگر چےن بھارت کو دھمکی نہ دےتا تو اس جنگ مےں بھارت جےت جاتا اور ہماری جانےں اور عزتےں محفوظ نہ رہتےں۔ 1966ءمےں اگرتلہ سازش کےس شروع ہوا۔ شےخ مجےب الرحمان بھارت کے علاقے اگرتلہ مےں جاکر را کے اےجنٹوں سے ملاقات کرتے تھے۔ اس سازش سے چےن نے پاکستان کو آگاہ کےا لےکن ہم ےہ مقدمہ ٹھےک طرح چلا نہ سکے۔ جس مقدمے کا نتےجہ نہ نکلے اور جرم ثابت نہ ہوسکے تو مجرم ہےرو بن جاتا ہے چنانچہ شےخ مجےب الرحمان اس سازش کےس کی بدولت ہےروبن گئے۔ بھارتی افواج روس کی حماےت سے مشرقی پاکستان پر جارحےت نہ کرتےں تو ہمارا ےہ بازو کبھی جدا نہ ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ پاکستان مےں جمہورےت کو فروغ دےا جائے۔ جمہوری دور کے لےے انسانی حقوق کا موجود ہونا ضروری ہے۔ احترام انسانےت‘ عوامی فلاح و بہتری ضروری ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم نے پاکستان مےں نئے انتخابات نہےں کرائے بلکہ 1970ءکے انتخابات کی بنےاد پر ہی نئی حکومت کی تشکےل ہوئی جس نے 1973ءمےں پاکستان کا آئےن بناےا جبکہ بنگلہ دےش نے نئے انتخابات کرائے اور پھر اپنا آئےن بناےا اور اقوام متحدہ نے اس ملک کو بھی تسلےم کر لےا۔ محمود علی کا بھی کہنا تھا اےک قوم کے دو ملک ےعنی پاکستان اور بنگلہ دےش ہےں۔ ےہ دونوں ملک دو قومی نظرےئے کی بنےاد پر قائم ہوئے ہےں۔ ہمےں بنگلہ دےش کے ساتھ نہاےت دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے چاہئےں۔ برےگےڈےئر (ر) حامد سعےد اختر نے کہا مےں نے بنگالےوں کو بہت قرےب سے دےکھا ہے۔ وہ ہم سے علےحدہ نہےں ہونا چاہتے تھے بلکہ ہم نے انہےں علےحدگی پر مجبور کےا۔ بنگالےوں مےں سےاسی شعور زےادہ تھا۔ انہےں اپنے حقوق کا علم تھا لےکن وہاں غربت زےادہ تھی۔ انٹےلی جنس مےں ہونے کے ناطے کراچی مےں سےاسی لوگوں سے ملاقات کرتا رہا۔ اگر انٹےلی جنس اےجنسےاں اور سےاسی رہنما باہم مل جل کر کام کرےں تو حالات مےں بگاڑ پےدا نہےں ہوتا۔ ٹھٹھہ سے 1200نوجوانوں کو فلم دکھانے کے بہانے بھارت لے جاےا گےا اور وہاں انہےں بلےک مےل کرکے الذوالفقار تنظےم مےں شامل کر کے دہشت گردی کی تربےت دی گئی۔ اس پر مےں نے تجوےز دی ان مےں سے صرف اصل دہشت گردوں کو سزا دی جائے اور باقی لوگوں کو معافی دے دی جائے اس طرح وہ محب وطن پاکستانی ثابت ہونگے۔ مےری ےہ تجوےز جنرل درانی کے ذرےعے صدر غلام اسحاق خان کے پاس پہنچی تو اُنہوں نے کہا ےہ کےسی احمقانہ تجوےز ہے۔ مےں نے اسی بات پر بے نظےر بھٹو کو آگے لگا رکھا ہے۔ اگر ےہ تنظےم ختم ہوجائے تو مےں بے نظےر بھٹو کو بلےک مےل نہےں کر سکتا۔ سندھ گرےجواےٹس اےسوسی اےشن والوں کا اجلاس بھارت مےں اندراگاندھی کی زےر صدارت ہوتا تھا۔ مےں نے گورنر سندھ محمود ہارون کو تجوےز دی ےہ لوگ بلاشبہ غےر محب وطن ہےں لےکن اس کے باوجود ان کا اجلاس سندھ مےں ہی ہونا چاہئے۔ ان لوگوں کی اےک کانفرنس مےں نے سندھ مےں منعقد کرائی جس مےں لوگوں نے صرف ےہی مطالبہ کےا انہےں سہولےات فراہم نہےں ہورہی ہےں۔ گورنر محمود ہارون نے انہےں بتاےا آپ لوگوں نے دےگر صوبوں کی نسبت زےادہ ترقی کی ہے اور باقاعدہ سلائےڈوں کے ذرےعے ترقی کی نشاندہی کی۔ کانفرنس کے اختتام پر شرکا کا کہنا تھا ہم پہلے وقت ضائع کرتے رہے ہےں۔ ہمےں پہلے غلط بتاےا جارہا تھا۔ دو سال پہلے اسی سندھ گرےجواےٹس اےسوسی اےشن کی مےٹنگ بھارت مےں منعقد ہوئی تو مےں نے سر پےٹ لےا۔ مےجر جنرل (ر) راحت لطےف نے کہا سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے تقرےبات کے انعقاد کا مقصد نئی نسل کو اس المےے کے بارے مےں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ اس سانحے کے حوالے سے حمود الرحمان کمےشن تشکےل دےا گےا لےکن پھر اس کی رپورٹ جاری نہےں ہوئی۔ اس سانحے کے جو ذمے دار تھے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہےں کی گئی۔ اس محاذ پر ہمےں سفارتی‘ سےاسی اور فوجی سطح پر شدےد ناکامی ہوئی۔ گنگا طےارے کی ہائی جےکنگ کے ذرےعے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمےان فضائی راستے بند کر دئےے گئے۔ مےری کھلنا مےں شےخ مجےب الرحمان سے اےک گھنٹے کی ملاقات ہوئی جب وہ پےرول پر رہا ہوکر والدہ کے جنازے مےں جارہے تھے۔ اس دوران شےخ مجےب الرحمان نے کہا تھا مےرے چھ نکات کوئی آسمانی صحےفہ نہےں۔ آج بھی پاکستان کو اےسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ عوام محفوظ نہےں۔ بلوچستان کے حالات سخت خراب ہےں حالانکہ وہاں حکومت بلوچوں کی ہے۔ 1965ءکی جنگ مےں پاکستان کا پلہ بھاری رہا لےکن 1971ءکی جنگ مےں ہماری شکست ہوئی کےونکہ اس وقت ہماری قوم متحد نہےں تھی۔ جمہورےت کا ےہ تقاضا ہے اگر منتخب حکومت اپنا کام خوش اسلوبی سے نہ کرسکے تو وہ پانچ سال پورے کےے بغےر اقتدار چھوڑ کر نئے انتخابات کرائے۔ سابق آئی جی سلمان خالق نے کہا دوسروں کو فےصلوں کا ذمے دار وہ لوگ ٹھہراتے ہےں جن مےں اخلاقی جرا¿ت نہےں ہوتی۔ بھارت روز اول سے ہی ہمارا دشمن تھا لےکن ہم نے اپنی غلطےوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان گنوا دےا۔ 1970ءکے انتخابات بالکل صاف و شفاف تھے لےکن ہم نے بنگالےوں کو ان کا حق نہےں دےا۔ مےں 1959ءسے 1971ءتک مشرقی پاکستان مےں رہا اور پھر جنگی قےدی کی حےثےت سے بھارت گےا۔ ڈھاکہ کے متعدد بنگالی افسروں نے مجھ سے کہا ہم نے 26 مارچ 1971ءسے قبل دو پاکستان اور اس کے بعد اےک پاکستان کے بارے مےں نہےں سوچا۔ ہم سات کروڑ بنگالی ہےں۔ مغربی پاکستان کے پاس اتنی گولےاں بھی نہےں۔ بنگالی بے حد محب وطن پاکستانی تھے۔ اگر ہماری فوجی حکومت اقتدار چھوڑ دےتی اور ذوالفقار علی بھٹو آمر حکومت کا ساتھ نہ دےتے تو مشرقی پاکستان ہر گز علےحدہ نہ ہوتا۔ بھٹو اور جنرل ےحےیٰ دونوں کا ٹرائل کرنا چاہئے تھا۔ ہمےں ملکی حالات کی بہتری کی جانب توجہ دےنی چاہےے اگر اےسا نہ ہوا تو ہم دس برس بعد خاکم بدہن سقوط بلوچستان پر پروگرام کر رہے ہونگے۔ ہمارے حکمران ےہ سمجھ رہے ہےں بلوچوں کو گولی مارنے سے ہی معاملات حل ہوں گے۔ ہمارے حکمرانوں اور اےجنسےوں کو بلوچستان کے حالات کا علم ہی نہےں۔ ہمارے حکمران نا اہل ہےں وہ بلوچستان کے مسائل گفت و شنےد سے حل کرنے کے قابل نہےں۔ فوری طور پر دانشوروں پر مشتمل اےک کمےٹی بنانی چاہےے جو بلوچستان کے مسائل حل کرے۔ بےرونی قوتےں مفرور بلوچوں کو اس لےے پناہ دے رہی ہےں کہ ان کی نظرےں بلوچستان کے ذخائر پر ہےں۔ ممتاز دانشور اور بنگلہ دےش مےں پاکستان کے سابق پرےس منسٹر محمد حسےن ملک نے کہا جب مےں بنگلہ دےش گےا تو وہاں دےکھا پاکستان کے خلاف ہر جگہ نعرے اور تصاوےر لگی ہوئی ہےں۔ مےں اسی حکومت کا نمائندہ تھا جس نے بنگلہ دےش کو تسلےم کرلےا تھا۔ مےں نے بنگالی حکومت سے سات مہےنے تک ےہ بحث و تمحےص کی کہ ڈھاکہ سے پاکستان کا سفارتخانہ ختم کر دےا جائے ےا پاکستان کےخلاف ہورڈنگ بورڈز ہٹائے جائےں آخر حکومت نے ےہ بورڈز ہٹا دئےے۔ بھارت نے 1971ءمےں مشرقی پاکستان مےں انڈسٹری ختم کردی تھی تاکہ وہ بھارت کی منڈی بنی رہے۔ بھارت بنگالےوں کو کئی گنا زےادہ قےمت پر اشےاءفراہم کرتا تھا جس کے بارے مےں جب بنگالےوں کو پتا چلا تو اُنہوں نے اس کےخلاف تحرےک چلائی۔ بنگالی اب بھی خود کو سابقہ پاکستانی کہلاتے ہےں۔ بھارت مےں بنگلہ دےش کے طالب علموں کو تعلےم کی مفت سہولےات فراہم کی گئی ہےں اور اس دوران ان کی پاکستان کے خلاف برےن واشنگ کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بنگالی پاکستان سے محبت کرتے ہےں اور وہ عالمی سطح پر ہمارا ساتھ دے رہے ہےں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام صوبے مل کر بلوچستان کے حالات ٹھےک کرائےں وگرنہ بھارت بلوچستان کو توڑنے کی پالےسےوں پر گامزن ہے۔ ممتاز صحافی رﺅف طاہر نے کہا مےں صحافت کے تےس پےنتس سال کے دوران نوائے وقت مےں گزارے گئے چند برسوں کو اپنی زندگی کا حاصل سرماےہ سمجھتا ہوں۔ مجلس محصورےن جدہ ان پاکستانےوں پر مشتمل ہے جو اس وقت بنگلہ دےش مےں محصورےن کی زندگی بسر کر رہے ہےں۔ چالےس سال گزرنے کے بعد بھی ےہ محصورےن جن کےمپوں مےں مقےم ہےں وہاں کی حالت بے حد بدتر ہے۔ ان محصورےن کے حق مےں پاکستان سے جو واحد آواز بلند ہوتی ہے وہ صرف مجےد نظامی کی ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدےنہ منورہ مےں بھی مجےد نظامی کے لےے خصوصی دعائےں کی جاتی ہےں۔ بنگلہ دےش مےں محصورےن کے کےمپوں پر آج بھی پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے۔ چالےس سال گزرنے کے باوجود ان اڑھائی لاکھ محصورےن کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ حل نہےں ہو سکا۔ جب مےں نوائے وقت کے نمائندے کی حےثےت سے بنگلہ دےش مےں ان محصورےن کے کےمپوں مےں گےا تو مجھ سے پوچھا گےا ہمارے محسن مجےد نظامی کی طبےعت کےسی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی و ابدی دشمن ہے۔ اسی کی بدولت ہماری مغربی سرحدےں بھی غےر محفوظ ہےں۔ ووٹ کے ذرےعے حاصل کےے گئے ملک کو گولی کے ذرےعے قائم نہےں رکھا جاسکتا۔ ہمارا دشمن ہمےں ہمارے مستقبل سے ماےوس کرنا چاہتا ہے لےکن پاکستان انشاءاللہ قےامت تک قائم رہے گا۔ برےگےڈئےر (ر) ظفر اقبال چودھری نے کہا کہ 20 جنوری 1969ءکو جنرل اےوب خان نے تےنوں افواج کے سربراہوں کا اجلاس بلواےا۔ اےوب خان کا کہنا تھا مشرقی پاکستان مےں فوج بھےجی جائے تاکہ وہاں جلاﺅ گھےراﺅ پر قابو پاےا جاسکے لےکن جنرل ےحےیٰ نے کہا مجھے اقتدار سونپا جائے تاکہ مےں پورے پاکستان مےں مارشل لاءلگا دوں۔ جنرل اےوب کے اعصاب چونکہ جواب دے چکے تھے اس لےے اُنہوں نے اقتدار جنرل ےحےیٰ خان کے سپرد کر دےا۔ اس وقت بھی مےں نے ےہ کہا اگر مسلم لےگ انتشار کا شکار رہی تو اقتدار عوامی لےگ ےا پےپلز پارٹی لے جائے گی۔ اس وقت بھی مسلم لےگےں انتشار کا شکار ہےں اگر ےہ متحد نہ ہوئےں تو آئندہ انتخابات مےں کسی بھی مسلم لےگ کو کامےابی نہےں ملے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سے ہی ”ادھر تم ادھر ہم“ کا نعرہ لگانا شروع کردےا۔ وہ جنرل ےحےیٰ کی ہر بات مانتے تھے۔ مشرقی پاکستان مےں ہماری صرف 3 ڈوےژن فوج تھی جبکہ اس کے مقابلے مےں بھارت کی 8 ڈوےژن فوج تھی جبکہ مکتی باہنی کے اےک لاکھ سے زائد گورےلے اس کے علاوہ تھے۔ بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد جنرل نےازی کو اس کی اطلاع رےڈےو سے ملی۔ ہماری فوجی ہائی کمان نے جنرل نےازی کو حملے کی اطلاع دےنی بھی گوارا نہ کےا۔ حکومت مشرقی پاکستان مےں بھارتی جارحےت کا معاملہ فوری طور پر اقوام متحدہ مےں لے کر نہ گئی جس کی وجہ سے سلامتی کونسل اس مسئلے مےں کچھ نہ کر سکی۔ اگر ےہ معاملہ اقوام متحدہ مےں لے جاےا جاتا تو ہم مشرقی پاکستان مےں ذلت سے بچ سکتے تھے۔ بھٹو کی پوری کوشش تھی سقوط ڈھاکہ ہوجائے اس کے بعد مےں ےہ معاملہ اقوام متحدہ مےں لے کر جاﺅں گا۔ کرنل (ر) فرخ نے کہا 1970ءمےں مےری ڈھاکہ مےں فوج کے خفےہ ادارے مےں تعےناتی ہوئی۔ پاکستان کے معاملات کے حل کے لےے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ بلوچستان پاکستان کے لےے بے حد اہمےت رکھتا ہے۔ وسطی اےشےا کے لےے پاکستان کی راہداری کی اہمےت اور بحےرہ عرب پر پاکستان کا کنٹرول بلوچستان کی بدولت ہی ہے۔ شورش زدہ علاقوں مےں سرداری نظام کو بہتر انداز مےں استعمال مےں لاےا جائے تاکہ وہاں دہشت گرد عناصر کی رسائی ممکن نہ ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئےنی عہدے صرف ان لوگوں کو دئےے جائےں جن کے پاس دہری شہرےت نہ ہو اور وہ مسلسل 10 سال سے پاکستان مےں رہ رہے ہوں۔ صدر اور وزےراعظم کا انتخاب رےفرنڈم کے ذرےعے ہو اور پھر وہ اپنی ٹےم تشکےل دےں۔ پروفےسر علامہ محمد مظفر مرزا نے کہا 1972ءمےں اےک کتاب لکھی گئی تھی جس مےں ےہ کہا گےا تھا پاکستان تاش کے پتوں کا گھر ہے جسے ہم جب چاہےں ختم کرسکتے ہےں۔ ہمارا حال غرناطہ کی تارےخ کو دہرا رہا ہے۔ محمد بن قاسم اور خالدبن ولےد اےک ہی سال مےں برصغےر اور ہسپانےہ مےں گئے۔ ہسپانےہ مےں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی لےکن صلےبےوں نے ان سب کو نےست و نابود کر دےا۔ ہسپانےہ کی اس تارےخ کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کے خارجہ امور کے ماہرےن نے اےسی پالےسےاں تشکےل دےں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سبب تھےں۔ بلوچستان 1971ءکی تارےخ دہرانے کے نکتے پر پہنچ چکا ہے۔ کالم نگار ادےب جاودانی نے کہا سابق امرےکی وزےر خارجہ ہنری کسنجر نے ےہ اعتراف کےا ہے ہم نے 1971ءمےں مشرقی پاکستان کو علےحدہ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ ہم نے 1947ءمےں برطانےہ سے آزادی حاصل کر لی لےکن پھر ہم امرےکہ کے غلام بن گئے۔ مےں نے اور شاہد رشےد نے بنگلہ دےش کا دورہ کےا تو ہم نے وہاں شےخ مجےب الرحمان کے قاتل کرنل فاروق سے انٹروےو کےا۔ کرنل فاروق کا کہنا تھا مےں نے شےخ مجےب الرحمان کو اس لےے قتل کےا کہ وہ بھارت کا اےجنٹ تھا۔ بنگلہ دےش کی موجودہ حکومت نے کرنل فاروق کو پھانسی کی سزا دے دی ہے۔ 47 فےصد بنگالی خط غربت سے نےچے زندگی گزار رہے ہےں حالانکہ بنگالی مغربی پاکستان پر الزام عائد کرتے تھے وہ ہماری ترقی کی راہ مےں رکاوٹ ہے۔ کرنل (ر) اکرام اللہ خان نے مجےد نظامی سے مطالبہ کےا کہ نظرےہ پاکستان ٹرسٹ کے زےر اہتمام سقوط ڈھاکہ کی تحقےق کے لےے اےک کمےشن تشکےل دےا جائے۔ شاہد رشےد نے کہا جو قومےں اپنا ماضی بھول جاتی ہےں ان کا مستقبل کبھی روشن نہےں ہو سکتا۔ مشرقی پاکستان کی علےحدگی کے 39 برس بعد بھی ےہ ثابت ہورہا ہے کہ بھارت پاکستان کا شدےد مخالف ہے وہ پاکستان کو توڑنے کی پالےسےوں پر گامزن ہے۔ دبئی مےں را کا ہےڈکوارٹر ہے جہاں سے پاکستان کو ڈےل کےا جا رہا ہے۔ بنگالی دانشور اب ےہ کہہ رہے ہےں وہ پاکستان سے الگ نہےں ہونا چاہتے تھے۔ شےخ مجےب الرحمان سے جب ےہ کہا جاتا تم پاکستان سے الگ ہونا چاہتے ہو تو وہ جےب سے قرآن پاک نکال کر قسم اٹھا کر کہتے تھے مےں پاکستان سے ہرگز علےحدگی نہےں چاہتا۔ 1970ءکے انتخابات مےں صرف 57 فےصد ووٹ ڈالے گئے۔ دہشت گردی کی وجہ سے لوگ اپنی رائے کا اظہار نہےں کر سکے۔ عوامی لےگ کے غنڈوں نے لوگوں کو پولنگ سٹےشنوں پر آنے سے روکا۔ 42 فےصد ووٹروں نے عوامی لےگ کے حق مےں ووٹ دےئے جن مےں 23 فےصد ہندو تھے۔ آج ےہ بات ثابت ہو رہی ہے بنگالی ہر گز پاکستان سے الگ نہےں ہونا چاہتے تھے۔ حال ہی مےں متحدہ پاکستان کے سابق وزےر خارجہ حمےد الحق چودھری نے اےک کتاب لکھی ہے جس مےں اس کا واضح طور پر اعتراف کےا ہے کہ بنگالی پاکستان سے علےحدگی نہےں چاہتے تھے۔ نشست کے آخر مےں رﺅف طاہر نے مجلس محصورےن جدہ کا مجلہ ”حصار“ مجےد نظامی کی خدمت مےں پےش کےا۔ نشست کے اختتام پر 1971ءکی جنگ کے دوران پاکستان کے لےے قربانےاں دےنے والے شہدائے مشرقی پاکستان کی روح کی بلندی درجات کے لےے دعا کی گئی۔