مشرقی پاکستان کے زوال کا آنکھوں دیکھا حال

Dec 19, 2012

بریگیڈیئر (ر) شمس الحق قاضی

جب سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا ہے سقوط ڈھاکہ کے اسباب کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اور لکھا جا رہا ہے۔ اکثر لکھنے والوں نے متحدہ پاکستان میں پنجاب کی مبینہ بالا دستی کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے مورو دالزام ٹھہرایا ہے۔ ان لکھنے والوں میں جناب جسٹس حمودالرحمٰن بھی شامل تھے۔ جسٹس صاحب نے تو قیام پاکستان کے روزِ اول سے ہی پنجاب کو بالا دستی کا الزام دیا لیکن بعض لوگ جنہیں قائداعظم ؒ کا رفیق ہونے کا دعویٰ ہے ، مشرقی پاکستان کی محرومی کو قیام پاکستان سے بھی پیچھے لے جاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ برطانوی ہندو ستان کی عبوری حکومت میں بنگالی مسلمانوں کو نظر انداز کر کے اور مسٹر جو گندر ناتھ منڈل کو مسلم لیگ کی طرف سے مرکزی وزیر نامزد کر کے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایک اور مضمون نگار نے لکھا کہ بنگالی مسلم لیڈر شپ میں کمی تھی اسلئے قائد اعظم ؒ نے بنگالی مسلم لیڈر شپ کے قحط کی وجہ سے جو گندر ناتھ منڈل کو نامزد کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بنگالی لیڈر نے اس کیخلا ف احتجاج نہیں کیا تھا۔ راقم اس دوران GHQنئی دہلی میں سٹاف کیپٹن متعین تھا۔
جہاں تک مسٹر منڈل کی نامزدگی کا تعلق ہے اس کے خلاف میرے گہرے دوست جناب الطاف حسین ایڈیٹر ڈان نے جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور جو اس وقت مسلم لیگ کے صف اوّل کے لیڈر تھے ، احتجاج کیا تھا۔ الطاف حسین ، خواجہ ناظم الدین کو نامزد کروانا چاہتے تھے۔ اس وقت خواجہ ناظم الدین بھی دلی میں موجود تھے۔ الطاف حسین نے مجھے بتایا کہ وزارت خواجہ ناظم الدین کا حق ہے۔ اور آج کل ان کی مالی حالت بھی اچھی نہیں۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ قائد اعظم سے ذکر کر کے دیکھ لیں شاید کوئی صورت نکل آئے ۔ الطاف حسین نے قائد اعظم کے پاس خواجہ ناظم الدین کی وکالت کی تو قائد اعظم نے انہیں سمجھایا کہ بنگال اور سندھ میں چونکہ مسلم لیگ کی وزارتیں تھیں۔انکی دل جوئی کی ضرورت نہ تھی اس لئے وہاں سے مسلم لیگ کا کوئی وزیر نامزد نہیں کیاگیا۔ پنجاب اور سرحد میںمخالف وزارتیں تھیں اس لئے وہاں سے دو وزیر لئے ہیں ، اقلیتی صوبوں کی ہمت افزائی ضروری تھی۔ اسلئے دو وزیر وہاں سے بھی لئے گئے۔ رہے منڈل صاحب تو وہ بنگالی کی حیثیت سے نامزد نہیں کئے گئے تھے ان کی نمائندگی کے ذریعے قائداعظم نے ایک طرف تو کانگریس کی اقلیتوں پر اجارہ داری کو چیلنج کیا اور دوسری طرف ہندو کانگریس کی جانب سے ایک نیشنلسٹ مسلمان ڈاکٹرآصف علی کی نامزدگی کا موثر اور مثبت جواب دیا۔ اس طرح اس نامزدگی سے بنگال یا بنگالی مسلمانوں کی محرومی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جہاں تک پنجاب کی بالادستی کا سوال ہے پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں اقتصادی بالادستی تو ہمیشہ سے کراچی کے پاس رہی، سیا سی بالادستی کے میدان میں ہمارے طاقت کے سر چشمے دو ہی رہے ہیں۔ سیا سی دور میں وزیر اعظم اور فوجی دور میں آرمی کا کمانڈر انچیف قیام پاکستان سے لیکر سقوط ڈھاکہ تک کے 24سالہ دور میں صرف دو پنجابی چوہدری محمد علی اور ملک فیروز خان نون مجموعی طور پر صرف دو سال کے مختصر وقفے کیلئے وزیر اعظم رہے دوسری طرف پاکستان آرمی میںشروع سے لیکر 1973ءتک چار پاکستانی کمانڈر انچیف بنے ان میں تین صوبہ سرحد سے تھے۔ اور ایک بلوچستان سے پہلا پنجابی کمانڈر انچیف 1973ءمیں مقرر ہوا اور اس طرح سقوط ڈھاکہ تک اکثر و بیشتر بلکہ تمام تر طاقت کے سر چشمے غیر پنجابیوں کے پاس رہے ہیں۔
تعجب ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب وعلل گنواتے وقت سب سے بڑی علت کی طرف کسی کی نظر نہیں جا تی اور وہ ہے مشرقی پاکستان میں موثر ہندو اقلیت کی موجودگی اور اسکی ریشہ دوانیاں یہ بات علیحدہ ہے کہ اپنے لوگ دشمن کیساتھ نہ مل جائیں تو دشمن کامیاب نہیں ہو سکتا تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے تین صوبوں میں موثر ہندو اقلیت موجود تھی ۔ مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال میں تقریباً 40 فیصد اور سندھ میں تقریباً 30فیصد ہندو موجود تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مغربی پنجاب سے ہندو سکھ اقلیت از خود انخلاءنہ کرجاتی تو شاید یہ صوبہ سب سے پہلے مرکز کیخلاف ہنگا مہ کھڑا کرتا۔ پنجاب سے انخلاءکے بعد صرف سندھ اور مشرقی پاکستان میں ہندو اقلیت رہ گئی تھی چنانچہ ہم نے دیکھا کہ انہی دو صوبوں میں مرکز گریز رحجانات جلد نمایاں ہونے لگے۔ صوبہ سرحد (پختونخواہ) میں ریفرنڈم کے بعد سُرخ پو ش اپنا اثر و رسوخ کھو بیٹھے تھے اور بعد میں سکند ر مرزا کے دور میں اگر ان کو حیات نو عطا نہ کی جاتی تو ہماری شمال مغربی سرحد میں مرکز گریزی پھر جنم نہ پا سکتی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی موثر ہندو اقلیت کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی غفلت اور عدم توجہی کے سبب مختلف صوبوں میں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ اس فضا نے بعض صوبوں میں ایک عوامی تحریک کا رخ بھی اختیار کر لیا اور حقیقت یہ ہے کہ ایسی فیڈریشن میں جہاں انتظامی یونٹوں میں زبان کے اختلاف کے ساتھ ساتھ ان کے رقبہ آبادی و سائل میں بھی شدید عدم توازن ہو اس قسم کی عدم اعتمادی کی فضا کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ نوز ائیدہ وفاقی ملکوں میں اگر کوئی ایک انتظامی یونٹ بھی سائز میں اتنا بڑا ہو کہ اس کیلئے ایک علیحدہ مملکت بننے کا تصور ممکن نظر آئے تو کسی نہ کسی بہانے وہ اس تصور کو حقیقت میں بدلنے میں کوشاں رہے گا۔ انگریز نے صوبوں کی تقسیم اپنی مخصوص انتظامی ، سیاسی اور فوجی مصلحتوں کی بنا ءپر کی تھی۔ ان میں سے اکثر مصلحتیں آزادی کے بعد بدل چکی تھی اس لئے مکھی پرمکھی مارنے کی بجائے ہمیں اپنی سیاسی انتظامی اور فوجی ضروریات کا ازسر نو جائزہ لے کر نئی انتظامی یونٹیں قائم کرنی چاہئیں تھیں۔چنانچہ چاہیے یہ تھا کہ شروع ہی میں بڑی انتظامی یونٹوں کو ایسے بہت سارے چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر دیا جاتا جو اندرونی انتظام میں خود مختار ہوتے لیکن سائز اور وسائل کے لحاظ سے ان کیلئے ایک علیحدہ مملکت بننے کا تصور ناممکن ہو تا۔ ایسی مثالیں افغانستان ، ایران اور ترکی میں موجود ہیں جہاں پر صوبوں کی تعداد ہمارے ضلعوں کے برابر ہے اور سائز ہماری تحصیلوں سے بڑا نہیں چنانچہ ان ملکوں میں مرکز گریزی کے رجحانات مقابلتاً بہت کم نظر آتے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبہ پرستی اور مرکز گریز ی کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے بچے کھچے پاکستان کو موجودہ کمشنریوں کے برابر بیس پچیس صوبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس نئی انتظامیہ میں انتظامی امور میں بھی زیادہ آسانی ہو جائے گی۔ اور عوامی مسائل نسبتاً زیادہ آسانی سے حل ہو سکیں گے۔
چنانچہ ایک طرف تو ہم نے انتظامی یونٹوں کے ڈھانچے کو جوں کا توں رہنے دیا اور دوسری طرف ہندو اقلیت کی ریشہ دوانیوں کا کوئی موثر علاج نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان ہندوﺅں کی نسبت ہر لحاظ سے پسماندہ تھے اور اپنے اکثریتی صوبو ں میں تو بہت ہی زیادہ پسماندہ تھے۔ چنانچہ جیسے ہی پاکستان کا قیام ناگزیر ہوتا گیا اور خصوصاً 3جون کے اعلان کے بعد ہندوﺅں نے زبردست پروپیگنڈہ مہم چلا کر مسلمانوں میں نفاق اور صوبہ پرستی کا زہر پھیلانا شروع کر دیا۔ مغربی پنجاب میں مہاجروں کیخلاف اور سندھ اور مشرقی بنگال میں پنجاب کے خلاف پروپیگینڈہ مہم چلائی گئی۔ جس کا نتیجہ آخر کار سندھ میں ”جئے سندھ“ اور مشرقی پاکستان میں مجیب کے 6نکات کی صورت میں نمودار ہوا۔ کچھ عرصہ گزرا ایک صاحب رابرٹ وانک نے ریڈرز ڈائجسٹ میں لکھا تھا کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں عوام کے احساسات ہی صحیح تاریخ ساز ہوتے ہیں اور ان احساسات کو چھوٹے چھوٹے بظاہر غیر اہم وقعات زیادہ صحیح طور پر واضح کرتے ہیں۔ راقم نے اپنی سروس کا ابتدائی حصہ بہار اور بنگال میں گزارا اس لئے قدرتی طور پر مجھے نہ صرف اس سر زمین سے بلکہ بہار اور بنگال کے باسیوں سے بھی والہانہ لگاﺅ اور محبت ہے۔ پاکستان کا پہلا دور بھی میں نے مشرقی پاکستان میں دیکھا اس لئے اگست سے نومبر 1947ءتک تقریباً چار ماہ کے مختصر عرصے میں چھوٹے چھوٹے آنکھوں دیکھے واقعات لکھے دیتا ہوں۔ شاید قارئین کو ان میں مشرقی پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کے اسباب کی ابتداءنظر آئے۔
1946-47ءکے تاریخ ساز دور میں میر ی تعیناتی دہلی میں تھی اس لئے پاکستان بننے کے واقعات کا میں نے نہایت قریب سے مشاہدہ کیا۔ شروع اگست 1947ءمیں، میں رخصت پر راولپنڈی میں تھا کہ تقسیم ہند کی وجہ سے میری تبدیلی ڈھاکہ میں بطور سٹاف کیپٹن کے ہو گئی۔ اس وقت وہاں صرف دو بٹالین فوج تھی لیکن کوئی فوجی ہیڈ کوارٹر نہ تھا۔ ان دو بٹالین کے اوپر جو فوجی تنظیم ہم نے بنائی اس وقت اسے ایسٹ پاکستان آرمی ہیڈ کوارٹر کا بھاری بھر کم نام دیا گیا۔ مجھے فورٹ ولیم کلکتہ رپورٹ کرنے کا حکم ملا ۔ (جاری)

مزیدخبریں