وزیر داخلہ رحمان ملک کے دورہ نئی دہلی سے پہلے بھارتی حکومت اور اپوزیشن دونوں نے پاکستانی وزیر داخلہ کو ٹف ٹائم دینے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ رحمان ملک کے دورہ سے دو روز قبل بی جے پی کے راہنما نریندرامودی نے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں من موہن سنگھ کو خط لکھا کہ پاکستانی وزیر داخلہ سے سرکریک کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ نریندرامودی نے خط میں الزام لگایا تھا کہ بھارتی حکومت پاکستان کو سر کریک کا علاقہ دینے کی تیاری کر رہی ہے ایسا کیا گیا تو بھارتی حکومت کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ نریندرامودی کو یاد نہ رہا کہ سر کریک کا معاملہ دفاعی نوعیت ہے۔ سر کریک کے تنازعہ پر وزیر خارجہ یا وزیردفاع سے بات ہوسکتی ہے وزیر داخلہ کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
پاکستانی وزیر داخلہ کو الجھانے کے لئے کارگل کی جنگ میں مارے جانے والے کسی کیپٹن کالیہ کا ایشو بھی کھڑا کر دیا گیا۔ جب وزیر داخلہ اندراگاندھی ائرپورٹ سے باہر نکلے تو وہاں موجود بھارتی میڈیا کے درجنوں چینلوں کے نمائندے موجود تھے ایک خاتون صحافی نے پاکستان کے وزیر داخلہ سے پوچھا کہ کیپٹن کالیہ کو پاکستان آرمی نے حراست کے دوران ٹارچر کر کے مارا۔ کیا وہ فوج کی طرف سے معافی مانگیں گے تو رحمان ملک نے جواباً کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ کیپٹن کالیہ موسم کی خرابی سے مرے یا انہیں گولی لگی میں تو اس واقع کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘ مجھے پہلے معلوم تو کرنے دیں کہ کیا ہوا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس بھارتی خاتون صحافی نے یہ سوال پوچھا تھا وہ تاج ہوٹل کی لابی میں جہاں وزیر داخلہ ٹھہرے ہوئے تھے‘ کئی گھنٹے تک ان کا انٹرویو کرنے کے لئے منتظر رہی لیکن اسے انٹرویو نہیں دیا گیا۔ رحمان ملک نے اس خاتون صحافی کو اس شرط پر انٹرویو دینے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ بتائے کہ یہ سوال اس نے کس کے کہنے پر پوچھا تھا تو خاتون صحافی نے کہا کہ مجھے بھارتی انٹیلی جنس نے یہ سوال دیا تھا۔
راقم کو سترہ سال بعد نئی دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سے قبل پاکستان کے سابق صدر فاروق لغاری کے ساتھ اپریل 1995ءسارک سربراہ کانفرنس کی کوریج کے لئے مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تھا۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی بہت بدل چکا ہے ۔ یہاں کا انفراسٹرکچر کافی بہتر کر دیا گیا ہے ۔ 1995 میں جہاں صرف بھارت میں بنی ہوئی گاڑیاں ایمبیسڈر اور فیٹ چلتی تھیں لیکن اب تو بھارت میں دنیا بھر کی قیمتی اور جدید گاڑیاں دوڑتی نظر آتی ہیں ۔ بھارت کی معاشی ترقی گزشتہ کم و بیش دس برس سے 8 فیصد یا اس سے زیادہ رہی ہے ۔ نئی دہلی کو پرکشش بنانے کی ایک وجہ بھارت میں منعقد ہونے والے دولت مشترکہ کے کھیل بھی تھے ان کھیلوں کے دوران اندرا گاندھی ائرپورٹ بنایا گیا جو جدید ائرپورٹ ہے۔ کئی ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی گئی ان میں اشوک ہوٹل شامل ہے یہ ہوٹل سرکاری ہے۔ اس کو اب جدید بنا دیا گیا ورنہ یہ ایک عام سا ہوٹل تھا۔
ان تمام باتوں کے باوجود بھارت کی حکومت اور اس کے پالیسی سازوں کی پاکستان کے بارے میںسوچ نہیں بدلی۔ وزیرداخلہ سے جب ممبئی حملوں کے مجرموں کو سزا دینے میں تاخیر اورکیپٹن کالیہ کے بارے سوال پوچھے گئے تو ہمارے وزیر داخلہ نے جواباً کہاکہ ہم چاہتے ہیںکہ ممبئی کے واقعات ‘ سمجھوتہ ایکسپریس ‘بابری مسجد ایسے واقعات پھر نہ رونما ہوں ہم امن اور آشتی کے ماحول میں رہیں ۔
اگلے روز امن کی آشا کے علمبردار بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے یہ سرخی چھاپی equates Mombay with Babri Mosque" Motormouthed Malik قریباً قریباً تمام بھارتی چینلوں نے دن رات پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ جاری رکھا۔ ایک ہندی چینل کے اینکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارتی حکومت نے پاکستان کے وزیر داخلہ کو یہاں آنے کیوں دیا ؟
نئی دہلی میں صرف ایک تقریب ایسی تھی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ کچھ حلقے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو خلوص نیت سے بہتر بنانا چاہتے ہیں ۔ بھارت کی فیڈریشن فار انڈین بار کے صدر پرادیں ایچ پاریکھ نے وزیر داخلہ کے اعزاز میں جو ظہرانہ دیا اس میں انہوں نے پاکستانی وزیر داخلہ کی تعریف کی اور کہا کہ جب وہ گزشتہ سال اپنے وفد کے ہمراہ سپریم کورٹ آف پاکستان بار کے صدر کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر تھے تو وزیر داخلہ نے ان کی بے حد مہمان نوازی کی اور انہیں مکمل سیکیورٹی اورپروٹوکول دیا۔ ہم پاکستانیوں کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئے تھے بڑے شارٹ نوٹس پر آج ہم نے پاکستانی وزیر داخلہ کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ہے ۔ اس تقریب میں بھارتی پنجاب بار کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں پاکستان کے لیے محبت اور امن بھرے جذبات کا اظہار کیا گیا ۔ لیکن عملاً صورت حال یہ رہی کہ وزیراعظم منموہن سنگھ نے ذاتی خواہش کے باوجود پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت مسترد کردی اور یہ شرط لگا دی جب تک ممبئی حملے کے مجرموں کو کٹہرے میں نہیں لایا جاتا وہ پاکستان کا دورہ نہیں کریں گے۔ من موہن جی نے اس بات پر اکتفا نہیں کیا۔ انہوں نے دراندازی روکنے‘ حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے‘ منشیات کی سمگلنگ روکنے کے مطالبات بھی کر ڈالے۔