نیو یارک (آن لائن) سال 2013ء کا اختتام ہونے کو ہے لیکن افغانستان، پاکستان اور یمن میں امریکہ کی ڈرون جنگیں جاری ہیں،صدر براک اوباما اپنے وعدے کے مطابق بدنام زمانہ عقوبت خانے گوانتانامو بے کو بند کرنے اورشامی صدر بشارالاسد کو اپنے ہی عوام کے قتل عام سے روکنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ امریکی صدر کی گذشتہ چار سال پر محیط ناکامیوں کی اس داستان کے پیش نظر یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ان سے نوبل امن انعام واپس لے لیا جانا چاہئے۔ صدر اوباما کو مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کی وجہ سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کے بااثر شہزادے اور سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے بارے میں کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کرنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے علاوہ اور آوازیں بھی امریکہ اور اس کے صدر کے خلاف اٹھ رہی ہیں۔ اس سال اگست میں جب شامی صدر بشارالاسد کی وفادار فورسز نے دمشق کے نواح میں شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کیا تو اس کے فوری بعد امریکی صدر نے شام پر فوجی چڑھائی کی دھمکی دی اور انھوں نے ایسا سماں باندھا کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف امریکہ کا فوجی اقدام ناگزیر نظر آرہا تھا۔ اس دوران ایک سویڈش رپورٹر نے ان سے ایک سوال کیا تھا کہ کیا وہ نوبل امن انعام وصول پانے کے باوجود شام پر فوجی حملے کے لیے تیار ہیں؟ چنانچہ انہیں جب اس طرح کے سوالوں کا سامنا ہوا تو انہوں نے کانگریس سے حملے کی منظوری کی اجازت طلب کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لئے سمجھوتا طے پاگیا۔ شہزادہ ترکی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے صدر بشارالاسد کی ''کلنگ مشین'' کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند اور سیکولر شامیوں کی امداد کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔