سانحہ پشاور اور مثالی قومی یگانگت

پشاور کے آرمی پبلک سکول پر برپا کی گئی قیامت صغری درندگی کی ایک ایسی واردات ہے جسکی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی141 معصوم بچوں کی جانوں پر وحشیانہ قاتلانہ حملہ انسانیت کےخلاف وہ گھناﺅنا جرم ہے جسکی مثال شاید ساری انسانی تاریخ میں بھی نہ مل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کی تخلیق کی اس وقت سے افراد کے آپس میں لڑائیوں کے چھوٹے بڑے معرکے ہوتے رہے سکندر اعظم نے بہت سارے علاقے فتح کئے۔ نپولین نے کئی بڑی بڑی جنگیں لڑیں اسکے علاوہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں بے پناہ انسانی جانوں کا ضیاءہوا۔ لیکن یہ جنگیں زیادہ تر برابری کے دو متحارک گرہوں میں تھیں۔ ہر فریق مسلح تھا جنگوں کا اعلان ہوا جہاں حملہ آور افواج اپنے اہداف اور ان کے حصول کیلئے حملے کے مقام اور اوقات خود چنتی رہیں۔ وہاں دفاع کرنیوالے ممالک کی افواج بھی مکمل چوکس تھیں ان بھیانک خونی جنگوں کے بعد پھر بھی بین الاقوامی اصول وضع کئے گئے۔ جنیوا میں انیسویں اور بیسویں صدیوں میں چار کنونشز (Convention) پر دستخط ہوئے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ممالک اور رعونت سے سرشار بین الاقوامی بڑی طاقتوں کے لیڈر اس پر متفق بھی ہو گئے کہ ہسپتالوں، سکولوں، زخمیوں کو بین الاقوامی کھلے سمندروں کے ذریعے لے جانیوالے بحری جہازوں اور جنگی قیدیوں کے کیمپوں کے علاوہ سول آبادیوں پر حملے نہیں ہونگے۔ لیکن 9/11 کے بعد جس سفاکی کے ساتھ پاکستان دہشتگردی کا نشانہ بنا آج کی دنیا میں اسکی کوئی مثال نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ افغانستان اور عراق کے عوام پر بھی بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ یہ لوگ نہ صرف مقامی بلکہ ریاستی دہشتگردی کا شکاربھی ہوئے لیکن ان ممالک میں تقریباً ڈیڑھ سو سکول کے بچے اور اساتذہ اس طرح ہلاک نہیں کئے گئے جیسے پاکستان کے شہر پشاور میں 16 دسمبر کو ہوا۔ یہ سچی بات ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کے افغانستان اور عراق پر حملے بڑے شرمناک تھے۔ اسکے علاوہ زیر تسلط ممالک میں دہشتگردی نے بھی بہت ساری معصوم جانیں لیں لیکن پاکستان کے 60,000 شہداءکی صفوں میں جہاں 18 اکتوبر 2007ءکو شہید ہونے والے سینکڑوں پی پی پی کے غریب جیالوں کے علاوہ آرمی کے جوان پولیس عام شہری اور میڈیا کے لوگ شامل تھے وہاں بے نظیر بھٹو، حاجی بشیر بلور، بڑے بڑے جید علمائ، لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ مرزا اور میجر جنرل نیازی جیسی بڑی بڑی شخصیات بھی شامل تھیں۔ اس طرح کی قربانیاں کسی دوسرے ملک نے نہ دیں۔
قارئین! ہماری قومی سلامتی کیخلاف گوریلا جنگ کا پہلا بڑا ہدف تو بغیر شک کے پاکستان کے عسکری یا سٹریٹجک (Punch) پنچ کو کمزور کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے حملوں میں ہدف افواج پاکستان کے ادارے اور ہماری سٹریٹجک وار مشینری تھی۔ جی ایچ کیو، آئی ایس آئی، کامرہ اور مہران کے ہوائی اڈوں پر کھڑے اربوں ڈالرز کے اریکس اور پی تھری سی اورین میری ٹائم سرویلنس جہازوں پر تباہ کن حملے صرف اس مقصد کے حصول کیلئے تھے۔ دوسرا ہدف پاکستان کی بین الاقوامی برادری میں ساکھ کو مجروح کرنا اور اس کو دنیا کا غیر محفوظ ترین ملک ظاہر کرنا ہے۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پشاور ائیرپورٹ اور کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر یلغار اس مقصد کے حصول کیلئے تھی تیسرا بڑا مقصد پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنا اور اس ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں ہماری گیس پائپ لائنز ٹرانسمشن لائنز اور غیر ملکی خصوصاً چینی اور فرانسیسی انجینئرز پر حملے ہوئے۔ چوتھا بڑا ہدف پاکستان کی قومی یکجہتی ہے جس ملک کے اندر تفریق آ جائے اور باہمی رشتوںمیں دراڑیں پڑ جائیں وہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ قومی یکجہتی پر حملے کےلئے پاکستان کے دشمنوں کی نگاہ میں پاکستان کی خطرناک ترین فالٹ لائن، فرقہ واریت کی لعنت ہے۔ اس کو ہوا دینے کےلئے ہزارہ میں شیعہ بھائیوں کا بے دریغ قتل کیا گیا۔ ایران کیساتھ تعلقات بگاڑنے کی ازحد کوششیں ہوئیں۔ پانچواں اور سب سے اہم ہدف پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کے Moral یا ہمت اور حوصلے کو پست کرنا ہے اس کیلئے حملے ہمارے بچوں پر ہوئے۔ سٹرٹجیکلی یا عسکری لحاظ سے پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ وزیرستان کی جنگ میں مکمل شکست کے بعد دہشتگردوں کے قدم اکھڑ چکے ہیں۔ زوال پذیر دہشتگردوں نے بھوکھلاہٹ میں پشاور کے فوجی سکول پر حملہ کیا ہے پاکستان کے دشمن، اس بات سے پریشان ہیں کہ موجودہ حکومت کی آمد کے بعد ورلڈ بنک کی حالیہ رپورٹس کے مطابق معاشی بحالی کا عمل جاری ہو چکا ہے۔ دہشتگردی کے باوجود 43 ارب ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آ رہی ہے اس لئے پاکستان کو معاشی لحاظ سے دیوالیہ کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسکے علاوہ امام بارگاہوں اور مساجد پر حملوں کے باوجود دشمن فرقہ واریت کو ہوا دینے میں بھی ناکام ر ہے ضرب عضب بھی کامیابی سے جاری ہے جہاں تک قومی مرال یا فوجی will to fight کا تعلق ہے تو پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کے حوصلوں اور ہمت کی پوری دنیا داد دیتی ہے۔ بچوں پر درندوں کے وحشیانہ حملے نے ہمارے جگر کو چھلنی تو ضرور کیا ہے لیکن ہمارے حوصلے پہلے سے بھی اور بلند ہوئے ہیں۔ اس وحشیانہ واردات نے ثابت کر دیا ہے کہ ضرب عضب انتہائی ضروری تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست کے اندر کسی مسلح گروہ کی ریاست کو قائم نہ ہونے دیا جائے۔ ہتھیار صرف اس شخص کے ہاتھ میں ہو جس کو حکومت لائسنس دے۔ مدرسوں کی پاکیزگی کو مجروح کرنیوالی کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے مساجد کے اندر خواندہ امام ہوں جو اپنے علم کے موتی بکھیر کر ملک میں امن کا پرچار کریں۔ وزیر اعظم پاکستان نے جو چند اہم اقدامات اٹھائے ہیں ان میں سرفہرست کل جماعتی کانفرنس ہے جس میں ہر جماعت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ دوسرا فیصلہ جو بہت بروقت اور ضروری تھا وہ عدالتوں کی طرف سے موت کے سزا یافتہ مجرموں کی فوری ایگزیکیوشن کا فیصلہ ہے۔ اس میں سب سے پہلے ان لوگوں کی سزاﺅں پر عمل ہونا چاہئیے جن کے ہاتھ بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس اور Nacta کے منشورپر فوری اور مکمل عمل ہو۔ تیسرا حکومتی فیصلہ یہ تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف فوری طور پر افغانستان جا کر افغان صدر، افغان آرمی چیف اور نیٹو کمانڈر سے ملیں۔ اور افغان صدر، افغان آرمی چیف اور نیٹو کمانڈز کو ان دہشتگردوں کی شہادتیں پیش کریں جو جرائم میں ملوث ہیں اور ملا فضل اللہ جیسے دہشتگردوں کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کریں اسکے علاوہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلایا جا رہا ہے تاکہ عوام کے منتخب نمائندے حکومت کی رہنمائی کیلئے حالات پر اپنی آرا دیں اور جہاں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے وہ کی جائے عمران خان کی APC میں شمولیت اور دھرناختم کرنے کا اعلان قابل تحسین ہیں اب تحریک انصاف کو اسمبلیوں میں واپس بھی آ جانا چاہئیے اور اپنے صوبے کی حکمرانی پر دھیان دینا چاہئیے قارئین اس موقعہ پر بحیثیت قوم ہمیں مندرجہ ذیل چیزیں یقینی بنانی ہیں۔
قومی یکجہتی صرف علامتی نہیں بلکہ حقیقی اور مثالی ہو اور اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں سامنے نظر آئے۔ APC اور پارلیمنٹ قبائلی عمائدین کی مشاورت سے یہ فیصلہ کرے کہ فاٹا کا مستقبل کا ڈھانچہ کیا ہونا چاہئیے۔
بہترین قانون سازی سے کریمنل لاءاور سراغ رسائی کو موثر ترین بنایا جائے قومی سلامتی کیلئے سکیورٹی پالیسی کو ضروری مالی معاونت کے ساتھ موثر بنایا جائے۔
گوریلا جنگ کا مقابلہ کرنے کےلئے افواج پاکستان کی فوری ضروریات پوری ہوں فرنٹیر کورز میں مزید فورس (تقریباً 25 ونگز) کااضافہ ہو۔ پولیس کےلئے خاص تربیتی کورس مرتب کئے جائیں اور ان کی تنخواہوں میں معقول اضافے کے ساتھ ان کو بہترین ہتھیار اور ٹرانسپورٹ بھی دی جائے۔دہشتگردی صرف پاکستان کا داخلی معاملہ بالکل نہیں یہ جنوب ایشیاءکے خطے کا اور بین الاقوامی سطح کا مسئلہ ہے۔ اسکے حل کےلئے اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، افغانستان، چین، ہندوستان اور ایران کا تعاون ضروری ہے۔ اسی کام کیلئے موثر سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلاءاور کشمیر کے مسئلے کا حل اس الجھن کو سلجھانے کےلئے ضروری ہےں سانحہ پشاور نے پوری پاکستانی قوم کو متحد کر دیا ہے جو افواج پاکستان اور ساری سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

ای پیپر دی نیشن