شیخ رشید کنٹینر میلے پر سجی سیاسی دکان بند ہونے سے پریشان تو ضرور ہو گئے ہونگے۔ اور اب نئی دکان کی تلاش میں نکلنے کا سوچ رہے ہونگے۔ کیونکہ .... ”وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ اپنی دکان بڑھا گئے“۔
اب وہ گلا پھاڑ پھاڑ کس کے کنٹینر پر چڑھ کر جلاﺅ گھیراﺅ مرنے مارنے کی دھمکیاں دیتے پھریں گے۔ ہمیں تو ان کی اس جواں مرگ سیاسی بھونچال لانے کی خواہش پوری نہ ہونے کا افسوس ہی رہے گا۔ غم و اندوہ کے اس موقع پر ہم ان سے تعزیت کرتے ہوئے انکی طفل تسلی کی خاطر یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم انکے غم میں برابر کے شریک ہیں ہمیں افسوس یہ بھی ہے کہ اب ان جیسے چلتے پھرتے سیاسی بابے ہمارے سیاسی منظر نامے سے غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔ لے دے کر ایک ”بابا شجاعت“ ہی بچے ہیں۔ خدا ان کی رسی معاف کیجئے گا زندگی دراز کرے۔ وہ تن تنہا ہماری سیاسی زندگی کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔ مگر ان میں ایک وضع داری ہے اور وہ اللہ لوک قسم کے چودھری ہیں۔ اسکے علاوہ تو اور کوئی بابا رہا ہی نہیں جو بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی جگہ لے سکے۔ شجاعت بابا بھی ان کی جگہ نہ لے سکے۔ الٹا گمراہ ہو کر ایک کنٹینر بابا کے پیچھے لگ کر اپنی ساری سیاسی تپسیا ضائع کر دی۔ وہ ڈرامہ باز کنٹینر بابا ان سب کو ماموں بنا کر خود فشوں کر کے نکل گیا۔ خوب دام بھی کھرے کر گیا۔
رہ گئے چودھری برادران تو وہ اب صابری برادران کی طرح سانپ نکلنے کے بعد صرف تالیاں پیٹتے رہ گئے ہیں۔ اب یہی صورتحال شیخ رشید کی بھی ہے۔ انکا بس چلتا تو وہ پورے پشاور اجلاس کو ہی خودکش حملہ آور بن کر تہس نہس کرتے مگر افسوس ....
دل کے ارماں آنسوﺅں میں بہہ گئے
ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے
والی حالت شیخ رشید کی ہو گئی ہے۔ البتہ شکر ہے کہ عمران خان نے قومی رہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی سرکس کو خیر باد کہہ دیا۔
٭....٭....٭....٭
پی آئی اے کے پی ایس او کو دیئے گئے 112 ارب روپے کے دوچیک باﺅنس ہو گئے۔ اب ان دونوںمیں سے ہم کس کا ماتم کریں کس کو برا کہیں۔ یہ دونوں قومی ادارے اس وقت ٹی بی کے مریضوں کی طرح آخری سٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ بڑی مشکل سے سانس لے پا ئے ہیں۔ سفارش یا رشوت، اقرباءپروری، لوٹ کھسوٹ نے ان دونوں کا خانہ خراب کر رکھا ہے۔
ایک وقت تھا کہ یہ دونوں ادارے ملکی افتخار کا نشان تھے ایک زمین پر دوسرا آسمان پر ملک کے پرچم بلند کئے ہوا تھا۔ پھر اپنوں کی مہربانی سے ان کو دیمک لگنا شروع ہوئی اور یہ دونوں کھوکھلے تنے کی طرح آج گرے‘ کل گرے کے خطرے سے دو چار نظر آتے ہیں۔ اب پی آئی اے جو پہلے ہی مری ہوئی ہے۔ مفت کا پٹرول اڑانا اپنا فرض سمجھتی ہے اربوںروپے اس کا خون چوسنے والا عملہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ اسے کیا ضرورت تھی غالب کی طرح....
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ وہ چادر دیکھ کر پاﺅں پھیلاتی اور اتنا ہی پٹرول پھونکتی جتنے کا بل ادا کر سکتی اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرتی فضول عملے کو فارغ کرتی۔ اب پی ایس او والے تو پی آئی اے کی طرف سے اربوں روپے کے بوگس بل باﺅنس ہونے کے بعد تڑپ ہی اٹھے ہوں گے کہ ایک قومی ادارہ دوسرے قومی ادارے سے کس طرح دھوکے بازوں جیسا سلوک کر رہا ہے۔ جوابی حملے کے طور پر اس نے پی آئی اے کو پٹرول کی فراہمی بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے دیکھنا ہے اس کے بعد یہ مریل ہوائی کمپنی کونسا طریقہ واردات استعمال کرتی ہے پی ایس او کو پھر بے وقوف بنانے کا....
٭....٭....٭....٭
بحریہ ٹاﺅن کراچی میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی مسجد تعمیر کی جائیگی۔
بے شک مسجد، سرائے، تالاب، شفاخانے، سڑکیں اورپل تعمیر کرنا نیکی ہے بندگان خدا کی خدمت ہے۔ مگر ہم کیا کریں ہمارے ہاں جائز و ناجائز مال سے حقیقی یا قبضہ شدہ اراضی پر زیادہ تر مساجد ہی تعمیر ہو رہی ہیں مگر اس حساب سے نماز پڑھنے والے ہمارے ہاں دستیاب نہیں۔ اقبال بھی تو یہی شکوہ کرتے رہے....
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں سے نمازی بن نہ سکا
لاہور، کراچی، جہاں بھی جائیں کیا خوبصورت عالی شان مساجد، گلی اور محلوں میں بھی قائم ہیں خوبصورت قالینوں، فانوسوں، روغنی ٹائیلوں اور ائیر کنڈیشنروں سے مرصع ان جنت نگاہ مساجد میں اکا دکا لوگ ہی نماز ادا کرتے پائے جاتے ہیں۔ البتہ جمعہ کے روز زیادہ ثواب کےلئے رش لگ جاتا ہے۔ مگر جب سے دھماکوں کا رواج چلا ہے یہ مساجد بھی ....ع
”نماز عشق ادا ہوتی ہے تلوار کے سائے میں“
کا منظر پیش کرتی ہیں۔ مسلح پولیس اہلکار بندوقیں تانے نمازیوں کے سروں پر مساجد کے باہر پہرہ دیتے ہیں کہ کوئی اور مسلمان آ کر ان مسلمانوں کو جنت نہ پہنچا دے۔ بحریہ ٹاﺅن والے پہلے بھی بہت سے اچھے کام کرتے آ رہے ہیں۔ خدمت خلق کا جذبہ بھی ان میں بہت ہے۔ ان سے ایک گزارش ہی ہم کر سکتے ہیں کہ اللہ کا گھر بنانے والے آباد کرنیوالے بے شمار ہیں۔ وہ بندگان خدا کی طرف اپنی توجہ زیادہ رکھیں۔ بے سہارا بزرگوں کیلئے اولڈ ہومز، لاوارث بچوں کیلئے بورڈنگ سکول کالجز اور غریب لوگوں کیلئے فری ہسپتال بنا کر خدا کی بارگاہ میں مزید اجر پائیں۔ کیونکہ یہی کام کرنے والے اللہ کے محبوب ہوتے ہیں.... بحریہ دستر خوان کی طرح یہ بھی ایک کار خیر ہی ہو گا۔
جمعة المبارک ‘ 26 صفرالمظفر 1436ھ19 دسمبر 2014ئ
Dec 19, 2014