اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بڑھتی آلودگی اور اس کی روک تھام کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے وفاق اور تما صوبائی ایڈووکیٹ جنرل، چیئرمین سی ڈی اے اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر مبنی تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کر لی ہے، جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کی جانے والی کوششیں قابل تعریف ہیں مگر اب بھی بہت سے پہلووں کو نظرانداز کردےا گےا ہے اس کے لئے تعلیم اورشعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، یہ ایک دن کا کام نہیں بلکہ مسلسل ارتقائی عمل سے ہی اس میں بہتری آئے گی، ماحولےاتی آلودگی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ گرین ایرےاز اور درختوں کی کمی ہے جبکہ خوبصورت پہاڑوں کو کاٹ کرکاروبار کرنا بھی ہے، پہاڑوں کی کٹائی سے غفلت برتی جا رہی ہے، وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جاتا۔ دوسری جانب ٹریفک اور صنعتی کارخانوں کا دھواں، ناقص صفائی اور سیورج سسٹم، کوڑا کرکٹ کا مناسب بندوبست نہ ہونا بھی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو بلوچستان کی جانب سے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتاےا گےا کہ اس حوالے سے مناسب اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں مگر وسائل اور شعور کی کمی کے باعث خاطر خواہ نتائج نہیں نکل رہے ہیں عدالت کچھ مہلت دے۔ خیبر پی کے کی جانب رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتاےا گےا ٹرانسپورٹ کی ہر ماہ چیکنگ کا سسٹم شروع کےا ہے ہر ماہ ایک مینٹگ ہوتی ہے جس میں متعلقہ اداروں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں جس کی ایک رپورٹ ہر ماہ کمشنر آفس دی جاتی ہے، اس حوالے سے ٹرانسپورٹرز کی ٹریننگ ورکشاپ کا سلسلہ بھی شروع کےا گےا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پھتروں کی کٹائی کا کام عروج پر ہے خوبصورت پہاڑ کاٹے جارہے ہیں مارگلہ ہلز ختم ہو رہی ہے، غفلت کا مظاہرہ کےا جارہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آلودگی کے حوالے سے حالات بہتر کرنے کی کوشش کی گئی مگر رپورٹس میں صرف ایک دو چیزوں کو مدنظر رکھ کرتےار کےا گےا ہے ان وجوہات کا جائزہ نہیں لےا گےا جو ماحول کی آلودگی کا باعث بن رہی ہیں۔
سپریم کورٹ