15 دسمبر 2015ءکو روزنامہ نوائے وقت میں شائع شدہ ایک خبر کیمطابق امریکہ میں قائم محصور پاکستانیوں کی تنظیم "Friends of Humanity" کے سیکرٹری جنرل احتشام ارشد نظامی اور صدر پاکستانی امریکن ڈاکٹرز ایم اے طور نے بنگلہ دیش جاکر وہاں محصور بہاری پاکستانیوں کے کیمپوں کا دورہ کیا۔ پاکستان آکر انہوں نے گیسٹ ان ٹاﺅن میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان محصورین کا حال زار بیان کیا۔ بیان کرتے ہوئے انکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے لیکن اخباری رپورٹ کے مطابق وہ پرعزم تھے کہ محصور پاکستانیوں کو پاکستان لانے کیلئے وہ حکومت پاکستان سیاسی رہنماﺅں اور صحافتی اداروں کے سربراہوں سے درخواست کرینگے کہ وہ پاکستان کیلئے ’زندہ درگور‘ محصور پاکستانیوں کےلئے ایک نئی قوت سے میدان میں اتریں۔ انہوں نے کہا کہ 42سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک دو ڈھائی لاکھ لوگ کیمپوں میں پڑے ہیں۔ انکی حالت زار روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے۔ احتشام ارشد نظامی نے بتایا کہ ”بنگلہ دیش کی حکومت اور رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ ہم انہیں پاکستان بھیجنے کو ہر وقت تیار ہیں کیونکہ یہ لوگ پاکستانی ہیں لیکن ہم کیا کریں حکومت پاکستان انہیں لینے کےلئے تیار نہیں۔ ان کا مو¿قف تھا کہ ان میں سے جتنے لوگوں کو حکومت پاکستان چاہے لے لے“۔
قارئین! یہ کتنی بڑی بدنصیبی کی بات ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان کی خاطر ہجرت کرکے بہار سے مشرقی پاکستان آئے وہاں کی تعمیر و ترقی میں جانیں لڑائیں لیکن پھر لسانی اور علاقائی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے ہزاروں کی تعداد میں 1971ءکے فسادات کے دوران بھی اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بھی بنگالی علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ وہ ایسے باوفا عشاق پاکستان ہیں کہ انہو ںنے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنا قبول کرلیا لیکن پاکستان سے محبت انکے دل سے نہیں نکلی۔ وہ آج 44برس بعد بھی پاکستان کی راہ تک رہے ہیں۔ وہ کون سی زنجیریں ہیں جن میں مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان، اہل پاکستان اور ’او آئی سی‘ میں موجود 50سے زائد اسلامی ممالک کے ہاتھ جکڑے ہوئے آخر کیا راز ہے کہ پاکستان میں اب تک آنےوالی حکومتوں میں سے کوئی بھی اتنی قلیل تعداد کے سچے اور سچے پاکستانیوں کو پاکستان نہیں لا سکی۔ آخر کوئی بتائے تو کہ اصل راز کیا ہے؟ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں ماشاءاللہ حق گوئی و بے باکی کی شہرت کے حامل ہیں۔ قول سدید کہنے کی خو رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1971ءمیں پاکستان اور افواجِ پاکستان کا ساتھ دینے والے ان محب اسلام اور محب پاکستان بنگالیوں کے حق میں ایک توانا آواز اٹھائی جنہیں حسینہ واجد حکومت نام نہاد، ناروا اور ظالمانہ ٹرائل کے ذریعے پھانسی کی سزائیں دلوا رہی ہے۔ وہی (چودھری نثار) لب کھولیں اور اہل پاکستان کو بتائیں کہ جو پاکستان بیس تیس لاکھ افغانوں کو پناہ دیتا رہا ہے جس نے زلزلوں، سیلابوں اور دیگر آفات میں پاکستانیوں کو بحالی کیلئے ہر قدم اٹھایا وہ اپنے ان مظلوم اور مجبور پاکستانیوں کیلئے کچھ کیوں نہیں کر پا رہا؟میں نے اپنے مذکورہ مضمون میں بھی ان محب وطن پاکستانیوں کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے ایک لائحہ عمل تجویز کیا تھا یہاں بھی نمبروار اس کا ذکر کرتا ہوں۔
1۔ اوّل تو کیمپوں میں رہنا ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ سب پاکستان ہی آنا چاہتے ہیں۔ تاہم احتیاطاً ان سب میں رائے شماری کروا کر یہ رائے لی جائے کہ کتنے افراد یا خاندان بنگلہ دیش میں Adjust ہونا چاہتے ہیں اگر کچھ ایسے نکل آئیں تو بنگلہ دیش حکومت کو درخواست کی جائے کہ انہیں وہاں کی شہریت دے کر دوسرے شہریوں کی طرح عزت و آبرو سے رہنے کا حق دیا جائے۔
2۔ باقی لوگ جو پاکستان ہی آنا چاہتے ہیں انہیں پاکستان منتقل کرنے کی راہ میں جو بھی قانونی یا سفارتی رکاوٹیں ہوں انہیں فوراً دور کیا جائے۔
3۔ ابتداً یہاں پاکستان میں ان کیلئے عارضی کیمپ اور خیمہ بستیاں بنائی جائیں جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں ۔
4۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایک منصفانہ تناسب سے بہاری پاکستانیوں کو تقسیم کردیا جائے۔ چاروں صوبوں میں دو دو کمروں کے فلیٹس یا کوارٹرز پر مشتمل کالونیاں بنائی جائیں۔
5۔ وفاقی حکومت اپنی اور چاروں صوبوں کی مالی معاونت سے فنڈ قائم کرے۔ مخیر پاکستانیوں سے تعاون کی اپیل کی جائے۔ ضرورت پڑے تو اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب، امارات، کویت اور قطر وغیرہ سے مالی مدد کی درخواست کی جائے۔
میں نے تجویز کیا تھا کہ یہ کام 2015ءمیں کرلیا جائے لیکن افسوس کہ یہ سال گزر گیا لیکن اس حوالے سے کچھ بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں نے اس مضمون میں بحریہ ٹاﺅن والے ملک ریاض صاحب سے بھی درخواست کی تھی کہ وہی آگے بڑھیں کیونکہ وہ نہ صرف اپنے وسائل سے ایک بہت بڑا تعاون دے سکتے ہیں بلکہ اس مسئلے کو حکومتوں سے بھی زیادہ بہتر طریقے سے Administrate کر سکتے ہیں۔ میں ان سے پھر درخواست کرتا ہوں کہ بحریہ ٹاﺅن میں مساجد اور یونیورسٹیاں بنانے کےساتھ ساتھ وہ ان لوگوں کو پاکستان لا بسانے کا کام بھی انجام دیں جو خستہ و خراب حالت میں کیمپوں میں پڑے پاکستان کو یاد کرکرکے اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ ان میں کتنے ہی رات رات پھر آہیں بھرتے اور جھولیاں اٹھا اٹھا کر اللہ سے فریادیں کرتے ہونگے کہ وہ کسی کو ان کی مدد کےلئے بھیج دے کہ جو انہیں اس حالت سے نکال کر پاک سرزمین پر پہنچا دے۔
نوائے وقت کی مذکورہ رپورٹ میں احتشام ارشد نظامی کی یہ بات پڑھ کر کہ ”بنگلہ دیش کی حکومت اور رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان ان لوگوں کو لینے کیلئے تیار نہیں“ میرا کلیجہ پھٹ سا گیا۔ میں پوچھتا ہوں حکومت پاکستان اور اہل پاکستان کو کہ کیا ان بے کسوں کی حب الوطنی پر انہیں شک ہے۔ انہیں حب الوطنی کا اور کیا ثبوت چاہیے؟ کیا وہ دیکھ نہیں رہے کہ 44سال سے وہ کس حال میں پڑے ہیں؟ افسوس تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے بھی ان بے کسوں کےلئے کوئی پرجوش مطالبہ اور تحریک نہیں ہے۔ بس ’نوائے وقت‘ ہی کی آواز سنائی دیتی ہے جو اب تک بظاہر صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے لیکن محصورین پاکستان پھر بھی پرعزم ہیں۔ انکی آس ابھی نہیں ٹوٹی کہ انکی حب الوطنی اٹوٹ ہے۔ وفا کے یہ پیکر پکار رہے ہیں کہ ....
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے