بلدیاتی محاذ کے لئے پنجہ آزمائی زوروں پر

احمد کمال نظامی
بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کے دوران بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے 22دسمبر کو انتخاب کے بعد بلدیاتی سیاست نیا رخ اختیار کر لے گی۔ انتخابی مہم کے خاتمے کے بعد ان ہا¶س انتخابی سیاست اور حکومت کے ذریعے اختلافات اور سیاست کے زاویے مکمل طور پر تبدیل ہو جائیں گے۔ اس ضمن میں ان دنوں فیصل آباد جسے 31اکتوبر 2015ءکے بلدیاتی انتخابات کے دوران صوبائی وزیرقانون رانا ثناءاللہ خاں اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما چوہدری شیرعلی کے مابین شدید اختلافات کی بناءپر پورے ملک میں توجہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی، سب کی نظریں اس امر پر لگی ہوئی ہیں کہ آئندہ فیصل آباد ضلع کونسل کا چیئرمین اور اسی طرح سٹی میئر کون منتخب ہو گا۔ضلع میں میاں قاسم فاروق کی طرف سے پہلے نامزدگی اور بعدازاں محاذ اوپن ہونے پر دستبرداری کے بعد زاہد نذیر چوہدری مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد آسانی سے چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہو جائیں گے لیکن شہر میں صورت حال قدرے مختلف ہے۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں کہ آئندہ بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لئے شہر اور ضلع میں متحارب گروپوں میں سے جو بھی کامیابی حاصل کرے اس کے براہ راست اثرات آئندہ عام انتخابات پر مرتب ہوں گے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کی نامزدگی سے پہلے پنجاب کی صوبائی کابینہ میں بااثر ارکان اسمبلی کو توسیع کے ذریعے اس میں حصہ دیا گیا۔ اب وفاقی کابینہ میں بھی توسیع کر دی گئی ہے لہٰذا یہ بات ٹھوس حقیقت ہے کہ چیئرمین ضلع کونسل اور سٹی میئر کے ہاتھ پلے کچھ ہو یا نہ ہو، جیسا کہ ان کے اختیارات میں تاحال کچھ نہیں ہے لیکن چیئرمین ضلع کونسل اور سٹی میئر بہرحال اپنی ایک سیاسی حیثیت اور شناخت رکھے گا اور خاص طور پر جب بات فیصل آباد جیسے بڑے شہر کی ہو تو اس پر بہت سارے تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ پنجاب میں نئی سیاسی قیادت ابھر کر سامنے آئےگی لہٰذا مسلم لیگ(ن) جس نے بلدیاتی انتخابات کے دوران پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں کسی مخالف سیاسی جماعت کی بجائے محض اپنے مدمقابل دھڑوں سے ہی انتخابات میں پنجہ آزمائی کی تھی۔ اس کے لئے چیئرمین ضلع کونسل اور سٹی میئر، اسی طرح وائس چیئرمینز ضلع کونسل اور ڈپٹی میئرز منتخب کرنا زیادہ مشکل کام نہیں۔ اسی غرض سے مسلم لیگ(ن) نے شہر اور ضلع میں اپنے اپنے پینلز کو ٹکٹ جاری کر دیئے ہیں اور ان کو انتخابی نشان شیر بھی الاٹ ہو گئے ہیں۔بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لئے پارٹی ٹکٹ جمع کروانے کے موقع پر مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹوں کے اجراءمیں ڈرامائی تبدیلی سامنے آئی تھی جس کے مطابق چیئرمین ضلع کونسل کے لئے مسلم لیگ(ن) نے اپنے نامزد امیدواراور مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر میاں قاسم فاروق کی بجائے سابق ضلعی ناظم اور مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے چوہدری عاصم نذیر کے بھائی زاہد نذیر چوہدری کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ میاں قاسم فاروق کے دستبردار ہونے سے ان کا پورا پینل ضلع کونسل کے انتخاب سے آ¶ٹ ہو گیا ۔ جس کے بعد میاں قاسم فاروق کے پورے پینل کی بجائے زاہد نذیر چوہدری کے پینل کو مسلم لیگ(ن) کا انتخابی نشان شیر الاٹ کر دیا گیا ہے جبکہ فیصل آباد سٹی میئر کے لئے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے رانا ثناءاللہ گروپ کے ایم پی اے ملک محمد نواز کے بھائی ملک محمد رزاق کے پینل کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا گیا اور اس طرح سے وہ مسلم لیگ(ن) کا انتخابی نشان شیر الاٹ کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ رانا ثناءاللہ گروپ کے مدمقابل مسلم لیگ(ن) کے مرکزی رہنما چوہدری شیرعلی کے مسلم لیگ(ن) ورکرز میئر گروپ کی طرف سے سٹی میئر کے لئے شیراز کاہلوں اور ان کے پینل کو گلدان کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے میونسپل کارپوریشن فیصل آباد شہر اور ضلع کونسل کے پینلز نے بلے کا انتخابی نشان حاصل کر لیا۔ اس طرح سے ضلع میں جن تین پینلز نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے وہ میاں قاسم فاروق کی دستبرداری کے بعد دو پینلز کی صورت میں منظر پر باقی رہ گئے ہیں اور اب ضلع میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے صرف دو پینلز میدان میں موجود ہیں جبکہ فیصل آباد شہر میں میونسپل کارپوریشن کے لئے چار پینلز نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے جو اب تین رہ گئے ہیں۔ فیصل آباد میونسپل کارپوریشن کے لئے مسلم لیگ(ن) کے دو پینلز اور تحریک انصاف کے ایک پینل کے مابین مقابلہ ہو گا۔ مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر اور مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے میاں قاسم فاروق قبل ازیں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے چیئرمین ضلع کونسل نامزد ہوئے تھے جبکہ ان کے پینل میں وائس چیئرمینز کے امیدواروں کے لئے سابق سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری افضل ساہی کے صاحبزادے جنید افضل ساہی، ندیم ضیاءاور شہیر دا¶د بٹ شامل تھے۔ زاہد نذیر چوہدری نے ان کی نامزدگی پر آزاد حیثیت سے چیئرمین ضلع کونسل کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتر کر اپنے پینل میں وائس چیئرمینز ضلع کونسل کے لئے خالد پرویز، رانا ذوالفقار اور رائے فیاض کو شامل کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کی سربراہی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس دوران فیصل آباد چیئرمین ضلع کونسل کے محاذ کو پارٹی ٹکٹ کی بجائے اوپن رکھنے کی تجویز زیرغور آئی اور میاں محمد شہبازشریف نے فیصل آباد ضلع کونسل کے انتخاب کو اوپن رکھنے کی تجویز کی توسیع کی جس پر میاں قاسم فاروق کے والد مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق نے پارٹی ٹکٹ کی بجائے اوپن انتخاب ہونے پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا۔ ان کی طرف سے دستبرداری پر مسلم لیگ(ن) نے زاہد نذیر چوہدری کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ جاری کر دیا۔ جس کے بعد زاہد نذیر پینل نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کو پارٹی ٹکٹ جمع کروا کر مسلم لیگ(ن) کا انتخابی نشان شیر الاٹ کروا لیا۔چیئرمین ضلع کونسل کے لئے تحریک انصاف کے امیدوار خان بہادر ڈوگر نے اپنے پینل کے وائس چیئرمینز محمد وسیم، ذوالفقار علی اور رانا جاوید اقبال کے ہمراہ پارٹی ٹکٹ جمع کروا کر بلے کا نشان حاصل کیا۔ جبکہ دوسری طرف سٹی میئر کے لئے ملک محمد رزاق نے اپنے پینل کے ڈپٹی میئرز امین بٹ، شیخ یوسف اور عبدالغفور کے ساتھ ریٹرننگ آفیسر زاہد بشیر گورایہ کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ جمع کروا کر انتخابی نشان شیر الاٹ کروا لیا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما چوہدری شیرعلی نے ورکرز میئر گروپ کی طرف سے سٹی میئر کے امیدوار شیراز کاہلوں نے پینل کے ڈپٹی میئرز کے امیدواروں شیخ ذوالفقار، میاں رشید اور معین گجر کے ہمراہ انتخابی نشان گلدان حاصل کیا۔ سٹی میئر کے لئے تحریک انصاف کی طرف سے سابق سٹی ناظم ممتاز علی چیمہ نے اپنے پینل کے ڈپٹی میئرز عتیق لکی شاہ، محمد سلیم اور محمد یعقوب کے ہمراہ پارٹی ٹکٹ جمع کروا کر بلے کا انتخابی نشان حاصل کیا۔ مسلم لیگ(ن) کے ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے اسلام آباد وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس کے دوران وزیراعظم زاہد نذیر چوہدری کو چیئرمین ضلع کونسل کے لئے پارٹی ٹکٹ نہیں دینا چاہتے تھے اور انہوں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ وہ مشرف دور میں بھی وفاداری تبدیل کر کے ضلعی ناظم رہ چکے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم فیصل آباد شہر میں ملک رزاق کی بجائے معاملہ پارٹی ٹکٹ کی بجائے اوپن رکھنا چاہتے تھے لیکن مسلم لیگ(ن) کی صوبائی قیادت نے وزیراعظم کی طرف سے میاں قاسم فاروق کی نامزدگی کے باوجود زاہد نذیر چوہدری کے پینل کو پارٹی ٹکٹ دے دیا اور اسی طرح فیصل آباد سٹی میئر کے لئے ملک رزاق کو قبل ازیں نامزد کیا اور گزشتہ روز پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق زاہد نذیر چوہدری کو مسلم لیگ(ن) کا پارٹی ٹکٹ دلوانے کے لئے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھی سفارش کی تھی جبکہ میاں قاسم فاروق کی سفارش ممتاز مسلم لیگی رہنما اور سابق سینیٹر فاروق خاں کر رہے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ روز لاہور میں وزیراعلیٰ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے دوران ایسی رپورٹس بھی زیربحث آئیں کہ میاں قاسم فاروق کو پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) چیئرمین ضلع کونسل کا انتخاب ہار سکتی ہے لہٰذا معاملہ اوپن رکھا جائے تاکہ دونوں جماعتی مخالف گروپوں میں سے جو بھی جیتے وہ مسلم لیگ(ن) کا ہو مگر میاں قاسم فاروق خاندان نے معاملہ اوپن ہونے پر اکتفا نہ کیا جس پر زاہد نذیر چوہدری گروپ کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔ فیصل آباد شہر میں سٹی میئر کے لئے مسلم لیگ(ن) کے دونوں پینل برسرپیکار ہیں اور اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔تاہم تمام دھڑے اب بلدیاتی انتخابات کے فائنل را¶نڈ کے موقع پر اپنی اپنی سیاسی بقاءکی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور ان کو بخوبی علم ہے کہ آئندہ سال کیونکہ 2018ءکے عام انتخابات کی تیاری کا سال ہو گا اور اس دوران عام انتخابات 2018ءکے لئے ہر کوئی سردھڑ کی بازی لگاتے ہوئے اپنی کارکردگی عوام کے روبرو لانے کی کوشش کرے گا اس ل©ئے بلدیاتی محاذ پر اقتدار میں آ کر کسی بھی گروپ کے لئے یہ عمل انتہائی آسان ہو سکتا ہے کہ وہ عام انتخابات کے دوران بھی بلدیاتی نمائندوں کی صورت میں اپنی کارکردگی کا تاثر دے سکے اور الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے باوجود بلدیاتی نمائندوں کی صورت میں اپنے گروپ کی برتری ثابت کر کے عوام کے روبرو ووٹ مانگے کی زیادہ سے زیادہ مستحکم پوزیشن میں ہو۔ تاہم مسلم لیگ(ن) نے اسی غرض سے آئندہ 22دسمبر کو بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کے انتخاب کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے شیڈول حاصل کیا۔ جس کے تحت فیصل آباد ضلع کونسل اور میونسپل کارپوریشن کے سربراہوں کا انتخاب کیا جائے گا۔مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ یافتہ امیدوار زاہد نذیر چوہدری مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے چوہدری عاصم نذیر کے بڑے بھائی ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ انہیں تحریک انصاف کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ تحریک انصاف نے چیئرمین ضلع کونسل کے لئے پورا پینل میدان میںجو اتارا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس ضلع کونسل کے لئے دو ا©ڑھائی درجن سے زیادہ جماعتی ووٹ تو موجود نہیں مگر خیال کیا جا رہا تھا کہ ان کا پینل حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کاسابقہ نامزد کردہ پینل کو بری طرح متاثر کرے گا کیونکہ تحریک انصاف ویسٹ ونگ کے صدر ان دنوں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چوہدری محمد اشفاق ہیں۔ چوہدری محمد اشفاق ایم این اے چوہدری عاصم نذیر کے سسر ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف میں چوہدری سرور کے ساتھ بھی نذیر فیملی کے دیرینہ تعلقات موجود ہیں لہٰذا تحریک انصاف کا پینل ضلع میں جو اپ سیٹ پیدا کرے گا اس کا سارا فائدہ زاہد نذیر چوہدری اٹھائیں گے لیکن اب جبکہ میاں قاسم فاروق الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے تو زاہد نذیر پینل کے لئے تحریک انصاف کو کوئی خطرہ نہیں وہ ان کے گھر کی مرغیسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ چیئرمین ضلع کونسل کے محاذ پر حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) شکست سے دوچار ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی اسی بناءپر وزیراعلیٰ پنجاب ضلع کو اوپن رکھنا چاہتے تھے اور بالاخر زاہد نذیر میاں قاسم فاروق کے الیکشن آزاد حیثیت سے لڑنے کے انکار پر ٹکٹ حاصل کر گئے اور وزیراعظم کے ان کے پرویزمشرف دور میں وفاداریاں تبدیل کرنے کے اعتراض کا بھی کچھ نہیں بنا۔ حالانکہ اگر وزیراعظم کے حکم کا پاس رکھا جاتا تو شاید زاہد نذیر سیاسی میدان میں موجود نہ رہتے۔ حکومت کے پاس کئی آپشنز موجود تھے مگر وزیراعظم کی شہر کی طرح ضلع کے معاملات میں بھی بظاہر کچھ نہ چل سکی۔ میاں قاسم فاروق مسلم لیگ(ن) کے نامزد امیدوار چیئرمین ضلع کونسل تو ضرور تھے لیکن انتہائی کمزور امیدوار تصور کئے جا رہے تھے۔ وہ بلدیاتی انتخابات کے دوران اپنے چچا اور تحریک انصاف کے امیدوار سے بھی شکست فاش ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے خاندانی بیٹھک منعقد کر کے اپنے چچا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا اور اس طرح سے یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہو کر چیئرمین ضلع کونسل کی دوڑ میں شامل ہیں۔ ضلع کونسل فیصل آباد کی اہمیت ہر دور میں بہت زیادہ رہی ہے۔ ماضی میں زاہد نذیر چوہدری کے والد گرامی چوہدری نذیر احمد مرحوم نے ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانے اور علاقے کے عوام کو عزت دے کر بلدیاتی سیاست میں اپنا بہت زیادہ مقام پیدا کیا۔ چوہدری نذیر فیصل آباد کے چیئرمین ضلع کونسل کی حیثیت سے پورے ملک میں شہرت رکھتے تھے جبکہ حلقے کے عوام میں بھی ان کو بھرپور پذیرائی حاصل تھی کیونکہ وہ عوام سے رابطہ رکھتے تھے اور دورافتادہ، پسماندہ علاقوں میں تعمیروترقی کے حوالے سے ان کی خدمات کو آج بھی فیصل آباد ضلع کے عوام یاد رکھتے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے جس کا فائدہ اٹھا کر زاہد نذیر اور ان کے برادران بار بار اقتدار میں آ جاتے ہیں حالانکہ زاہد نذیر ان کے بھائی عاصم نذیر وغیرہ کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے، ان کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ بیوروکریٹ انداز میں سیاست کرتے ہیں۔مبینہ طور پرووٹوں کی خریدوفروخت ان کی سیاست کا مرکزی محور ہے لیکن عوام کبھی بھی ان سے رابطہ نہیں رکھ پائی۔ ان کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ اگر کوئی شخص انہیں ٹیلی فون کرے تو شاید ایک سال تک ان سے رابطہ نہ ہو سکے کیونکہ ان کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں وہ انتخابی موسم میں باہر نکلتے ہیں اور پھرمبینہ طور پر پیسے کے بل بوتے پر ووٹوں کی خریدوفروخت کے ذریعے اقتدار کی مسند پر فائز ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ میاں قاسم فاروق کا خاندان بھی سیاست میں یعنی میاں محمد فاروق ایم این اے جو میاں قاسم فاروق کے والد ہیں انہیں سیاست میں زاہد نذیر کے والد چوہدری نذیراحمد مرحوم لے کر آئے تھے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے ایم این اے طلال چوہدری جو ان دنوں چوہدری نذیراحمد مرحوم کے خاندان کے شدید مخالف ہیں ان کے خاندان کو بھی چوہدری نذیراحمد مرحوم سیاست میں لے کر آئے۔ طلال چوہدری جڑانوالہ سے سیاست کر رہے ہیں وہیں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر اسلام آباد میں مصروف ہیں۔ طلال چوہدری کو کارزارسیاست میں ان کے چچا سابق صوبائی وزیر اور سابق تحصیل ناظم چوہدری محمد اکرم اپنی جگہ لے کر آئے تھے۔ چوہدری محمد اکرم پرویزمشرف کے دوراقتدار کے دوران دوسری مرتبہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر تحصیل ناظم جڑانوالہ رہے اور انہیں شدید ریاستی ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چوہدری محمد اکرم اور میاں محمد فاروق ایم این اے کو چوہدری نذیر احمدمرحوم کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا اور انہیں سیاست میں چوہدری نذیراحمد مرحوم ہی لے کر آئے تھے۔ گویا ماضی کے سیاسی دوست اور سیاسی خاندان اب ایک دوسرے کے شدید مخالف بنے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود زاہد نذیر خاندان اپنے والد کے نام اور پیسے کے بل بوتے پر کامیابی سمیٹتا ہے۔ فیصل آباد سے ایک رکن قومی اسمبلی چوہدری نثار احمد جٹ جن کو ان کے سسر چوہدری محمد الیاس جٹ مرحوم سیاست میں لے کر آئے تھے۔ چوہدری محمد الیاس ماضی میں پیپلزپارٹی کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ 2008ءکے عام انتخابات کے بعد وہ 2013ءکے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو چکے تھے۔ ان دنوں چوہدری نثار احمد جٹ چیئرمین ضلع کونسل کے لئے زاہد نذیر پینل کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ ماضی میں چوہدری محمد الیاس جٹ مرحوم جب پیپلزپارٹی میں تھے تو ان کے زاہد نذیر کے والد چوہدری نذیر احمدمرحوم سے شدید سیاسی اختلافات تھے۔ ماضی کے سالوں میں ایک مرتبہ چوہدری نذیر احمدمرحوم نے جب قومی اسمبلی کی نشست کے لئے انتخاب میں اترنے کا فیصلہ کیا اور ان کے مقابلے میں چوہدری محمد الیاس جٹ کھڑے ہو گئے تو چوہدری نذیر احمدمرحوم نے وہ حلقہ انتخاب مصلحت کے تحت چھوڑ دیا تھا تاہم یہ دلچسپ امر ہے کہ ماضی کے رقیب کبھی دوست اور کبھی سیاسی دشمن کے طور پر ایک دوسرے کے سامنے آ رہے ہیں۔ فیصل آباد سٹی کی صورت حال ضلع کونسل کے محاذ سے بھی زیادہ دلچسپ اور تلخ نظر آ رہی ہے۔ رانا ثناءاللہ گروپ اس وقت اقتدار کے بھرپور مزے اٹھا رہا ہے۔ اقتدار کی موج مستیوں میں مصروف ہے، انہیں مکمل طور پر حکومت پنجاب کی ہر محاذ پر سرپرستی حاصل ہے جبکہ ماضی میں فیصل آباد شہر میں بلدیاتی سیاست کے حوالے سے بابا©ئے سیاست کہلانے والے چوہدری شیرعلی حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) میں ہونے کے باوجود اور شریف برادران کے قریبی عزیز ہونے کے باوجود اپوزیشن میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ چوہدری شیرعلی شدید برہم ہیں کہ ارکان اسمبلی نے بلدیاتی انتخابات کے دوران پارٹی کارکنوں کو نظرانداز کر کے مسلم لیگ(ن) کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ مسلم لیگ(ن) کے چوہدری شیرعلی اور رانا ثناءاللہ گروپوں کے مابین بلدیاتی انتخابات سے قبل، بلدیاتی انتخابات کے دوران، مخصوص نشستوں کے انتخابات کے دوران اور اسی طرح گزشتہ ہفتے پارٹی ٹکٹوں کے اجراءپر شدید اختلافات جاری رہے جو تاحال جاری ہیں۔ اب مسلم لیگ(ن) کی طرف سے چونکہ پارٹی پالیسی کے برعکس چیئرمین ضلع کونسل کے امیدوار کو بھی ٹکٹ جاری کر دیا گیا ہے اور اسی طرح سٹی میئر کے لئے پارٹی پالیسی کے برعکس رانا ثناءاللہ گروپ کے ایم پی اے ملک محمد نواز کے بھائی رزاق ملک کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں چوہدری شیرعلی ایک مرتبہ پھر باغی بن کر سامنے آ گئے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ(ن) ورکرز میئر گروپ کی طرف سے شیراز کاہلوں کو اپنا امیدوار سٹی میئر میدان میں اتار دیا ہے۔ فیصل آباد شہر میں میونسپل کارپوریشن کی سربراہی کے لئے دونوں گروپوں کے درمیان شدید اختلافات، محاذ آرائی، جوڑتوڑ اور گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ رانا ثناءاللہ گروپ جو بلدیاتی انتخابات کے موقع پر چوہدری شیرعلی کو پارٹی پالیسی کے برعکس اپنے بیٹے عامر شیرعلی کو فیصل آباد کا سٹی میئر بنوانے کا طعنہ دیتے تھے وہ خود پارٹی پالیسی کے برعکس پارٹی قائدین سے ہی اپنے رکن صوبائی اسمبلی کے بھائی کے لئے سٹی میئر کا ٹکٹ ملنے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور حکمران جماعت کے ٹکٹ کو ہی اپنی کامیابی کا زینہ قرار دے رہے ہیں لیکن چوہدری شیرعلی بھی مکمل طور پر سٹی میئر کا معرکہ مسلم لیگ(ن) ورکرز میئر گروپ کے پلیٹ فارم سے مارنے کے لئے پرامید ہیں۔ دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات مزید بڑھنے کے خدشات بہرحال موجود ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے حلقو ںکا خیال ہے کہ رانا ثناءاللہ گروپ اگر متوقع طور پر حکمران جماعت کے ٹکٹ اور اقتدار کی طاقت کا فائدہ اٹھا سکتا ہے تو چوہدری شیرعلی گروپ ان کی طرف سے کارکنوں کو بار بار نظرانداز کرنے اور ریاستی مشینری کے بے دریغ استعمال پر کارکنوں کی صف آرائی کے ساتھ کامیابی کے لئے پرامید ہیں۔ فیصل آباد شہر میں معرکہ انتہائی کانٹے دار ہو گا کیونکہ فیصل آباد کی 157 سٹی کونسلز میں سے 74 پر شیر کے نشان پر سٹی کونسلز کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ مخصوص نشستوں پر چوہدری شیرعلی گروپ نے کامیابی حاصل کی جبکہ بہت سارے آزاد اور شیرعلی کے ورکرز میئر گروپ کے امیدوار بلدیاتی انتخابات کے دوران کامیاب ہوئے۔ تحریک انصاف کے حصے میں صرف اڑھائی درجن نشستیں آئیں جن پر تحریک انصاف نے اپنا ایک پینل سابق سٹی ناظم ممتاز علی چیمہ کی سربراہی میں میدان میں اتارا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے متحارب دھڑوں میں مکمل طور پر ایسا نہیں کہ شیرعلی گروپ کے پاس شیر کے نشان کے چیئرمین موجود نہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے ارکان اسمبلی حاجی محمد اکرم انصاری اور رانا محمد افضل ، اسی طرح ان کے صاحبزادے عابد شیرعلی اور طاہر جمیل ایم پی اے کے حلقوں کے منتخب چیئرمین اس گروپ کے حق میں اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں جس سے آئندہ شدید مشکلات کا دونوں گروپوں کو سامنا ہے بالخصوص حکمران جماعت کا حمایت یافتہ پینل شدید مشکلات سے دوچار نظر آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں اطراف سے الزامات اور مہم جوئی کا سلسلہ جاری ہے آئندہ جس کے حق میں بھی فیصلہ آیا دوسرے گروپ کا ردعمل شدید آ سکتا ہے۔ چوہدری شیرعلی نے انتظامی افسران کو بھی مداخلت سے منع کر کے وارننگ دے رکھی ہیں اور رانا ثناءاللہ پر الزام ہے کہ وہ سرکٹ ہا¶س میں حکومتی وسائل استعمال کر کے دھاندلی کے لئے پر تول رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ مسلم لیگ(ن) ورکرز میئر گروپ کامیابی یاناکامی دونوں صورتوں میں ان ہا¶س اقتدار یا اپوزیشن کی پوزیشن میں ہو گا جس نے مخالف گروپ کو شدید اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تاہم فیصلہ اب زیادہ دور نہیں کیونکہ 22دسمبر آنے والا ہے۔

ای پیپر دی نیشن